میرے ہاتھ کی ہتھیلیاں پسینے سے تر تھیں، مصنوعی مسکراہٹ سے اسے ٹال دیا، کیا بتاتا اگر میرے بس میں ہوتا تو اسی وقت جہاز سے اتر کر بھاگ جاتا۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 188
پہلا ہوائی سفر
فرسٹ کلاس میں میرا پہلا ہوائی سفر ٹینشن سے بھر پور تھا۔ لاہور اڑان بھرنے سے چند روز پہلے انڈین ایئر لائن کا ایک جہاز “احمد آباد ائیر پورٹ” پر اترتے وقت گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ جہاز میں سوار ہوا تو نا جانے اس حادثے کا خیال کہاں سے میرے ذہن میں اتر آیا۔ دوران پرواز طرح طرح کے خیال میرے ذہن کو گھیرے ہوئے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ میرے ہاتھ کی ہتھیلیاں پسینے سے تر تھیں۔ ائیر ہوسٹس جو میرے لئے چائے پیسٹری لائی تھی، میری حالت دیکھ کر بولی؛”سر! آپ ٹھیک تو ہیں؟“ میں نے مصنوعی مسکراہٹ سے اسے ٹال دیا۔ اسے کیا بتاتا، اگر میرے بس میں ہوتا تو اسی وقت جہاز سے اتر کر بھاگ جاتا۔ جیسے ہی جہاز لاہور کے ہوائی اڈے پر اترا، میں تیزی سے ایئر پورٹ سے باہر نکل گیا اور بہت عرصہ تک جہاز میں سفر کا نام بھی نہ لیا۔
میری گھر والی عظمیٰ بیگم
میں 25 اکتوبر کو لاہور پہنچا۔ 27 اکتوبر کو نکاح کی سادہ سی تقریب ہوئی اور 28 اکتوبر کو عظمیٰ انور سے عظمیٰ شہزاد بن گئی۔ یہ ساتھ اپنی تمام تر رعنائیوں، لڑائیوں، اچھے برے وقت کی گونج لئے 3 دھائیوں سے زیادہ پرانا ہو چکا ہے۔ اچھا وقت بھی دیکھا، برا بھی۔ لڑائیاں بھی ہوئیں، روٹھا بھی گیا اور منایا بھی گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ غلطی جس کی بھی ہوتی، مناتا میں ہی تھا۔ ہاں، نہ کبھی وہ روٹھ کر اپنے گھر گئی اور نہ ہی میں نے اسے جانے دیا۔ کمزوریاں سبھی میں ہوتی ہیں، اس میں کم اور مجھ میں شاید زیادہ تھیں۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں کی طرح یہ ساتھ بھی کبھی چھاؤں میں اور کبھی دھوپ میں گزر گیا۔
زندگی کے تجربات
اچھا ہی وقت گزرا۔ وہ بلا کی مہمان نواز، خوش مزاج اور رونق میلہ پسند کر نے والی ٹھہری جبکہ میں اتنا ہی خاموش اور تنہا ئی پسند۔ وہ سب بہن بھائیوں (اس کے اپنے ہوں یا میرے) اکٹھا کر کے خوش ہونے والی جبکہ میں تھوڑی دیر میں اکتا جانے والا۔ وہ رات کو دیر تک جاگنے کی عادی اور میں جلدی سونے والا۔ آخر اُس نے مجھے دیر تک جاگنے کی عادت ڈال کر ثابت کر دیا کہ “اللہ نے عورت کو بے پناہ قوت سے نوازا ہے۔”
عظمیٰ کی مہارتیں
عظمیٰ کو گھر سنوارنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے لالہ موسیٰ جیسے ویرانے اور کھاریاں جیسی بیگانی جگہ بھی منگل کر دیا تھا۔ جو رشتے دار یا دوست میرے گھر آتا، گھر کی سجاوٹ کی داد دیے بغیر نہ رہتا۔ شوق کا یہ عالم آج بھی کل جیسا ہی ہے۔ اس کے یہ شوق پورے کرتے کرتے میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں لیکن اس کا شوق و ذوق آج بھی جوان ہے۔ اب اس ذوق کی تکمیل میں میرا کم اور بیٹوں کا حصہ زیادہ ہے۔ یہ اللہ کی کرم نوازی ہے۔
خاندانی ذمہ داریاں
وہ میرے 2 خوبصورت، خوب سیرت بیٹوں عمر اور احمد کی ماں، مریم کی ساس اور امیرہ کی دادی ہے۔ ساری عورتوں کی طرح اسے بھی کپڑوں کا شوق ہے، البتہ اس کی مہربانی اسے زیور کا زیادہ شوق نہیں۔ میں بھی اپنے والد کی طرح اپنی ساری تنخواہ شادی کے بعد سے آج تک اسی کے حوالے کرتا رہا، اور اس پر اس نے اسی میں گزارا کیا۔ مجھے پیسے کے لئے کبھی بھی تنگ نہیں کیا۔ شاید اللہ کے کرم کے بعد یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ میں نے 99 فیصد نوکری ایمان داری سے کی۔ اس کے لئے میں اس کا دل سے ممنون ہوں۔ اس نے کبھی میرا پیسہ ضائع نہیں کیا اور کوشش کی اگر 4 پیسے بچ سکیں تو بچا لئے۔ اس کی یہ خوبی اس کی تمام باتوں پر بھاری ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔