ریل کا سفر آرام دہ تھا اور رومانٹک بھی، ہم بھی بیوی والے ہو گئے تھے، وہ تھی بھی میرا چاند ہی، جیتا جاگتا، ہنستا مسکراتا، گاتا چاند، بھرے گھر سے آئی تھی۔

مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 189
یہ بھی پڑھیں: فیصلہ پھر یہ ہوا، ظلم کے درباروں میں۔۔۔
گھر کی تبدیلی اور سفر
نومبر 88 کے آخر میں ہم لالہ موسیٰ سرکاری گھر شفٹ ہو گئے۔ یہ وہ دور تھا جب میرے پاس اپنی گاڑی نہ تھی۔ لاہور جانا ہوتا تو شروع میں میرا چھوٹا بھائی شہباز لاہور سے ہمیں لینے آتا یا پھر ہم گجرات سے فلائنگ کوچ سے لاہور جاتے۔ مشتاق کا بھائی زلفی اکثر ہمیں گجرات فلائینگ کوچ اڈے پر ڈراپ کرتا تھا۔ بعد میں لالہ موسیٰ سے ریل کار سے لاہور جانے لگے تھے۔ ڈاکٹر شفقت کے بھائی آصف محمود (مرحوم۔ بہت اچھا انسان تھا۔ جوانی ہی میں فوت ہو گیا۔) ریلوے میں سینئر ٹکٹ کو لیکٹر تھے۔ ہم سٹیشن پہنچتے، ٹکٹ خرید چکے ہوتے تھے اور وہ اپنے کنڈکٹرگارڈ دوست سے کہہ کر ہمیں اے سی پارلر میں بٹھا دیتے۔ ریل کا سفر آرام دہ بھی تھا اور رومانٹک بھی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت اب بجلی نہیں خریدے گی، وزیراعظم جلد نیشنل ٹیرف پالیسی کا اعلان کریں گے: وزیر توانائی
چندا کا آنا
چندا لالہ موسیٰ میں؛ ہم بھی اب بیوی والے ہو گئے تھے۔ چندا (عظمیٰ کو میں پیار سے چندا کہتا تھا۔ وہ تھی بھی میرا چاند ہی۔ جیتا جاگتا، ہنستا مسکراتا، گاتا چاند۔) بھرے گھر سے آئی تھی۔ اس کے گھر میں شام ہوتے ہی مہمان (رحمت) اترنے لگتے۔ اس کی والدہ کی مہمان نوازی اور کھلا دستر خوان اس کے ماموں، خالاؤں اور دوسرے عزیز و اقارب کو ان کے گھر کھینچ لاتی تھی۔ لالہ موسیٰ آئی تو بوریت قدرتی امر تھی۔ کبھی شام کو ادریس بھائی کے گھر چلے جاتے جہاں بھابھی سمعیہ اور ان کی والدہ سے گپ شپ ہو جاتی۔ ادریس بھائی کی والدہ پرانے زمانے کی وضع دار خاتون تھیں۔ پیار سے ملتی اور ڈھیروں دعائیں دیتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: اگلا میچ کھیلنے ساہیوال چلے آئے، میچ ہم ہار گئے اور وہ اپنا دل، تحریری امتحان کی چھٹی ملی، امتحان دے کر دل مطمئن تھا کہ یہاں سلیکشن ہو جائے گی.
دعوتِ شادی
لالہ موسیٰ میں ادریس بھائی نے ہم میاں بیوی کو شادی کی دعوت پر بلایا۔ ہمارے علاوہ دو اور فیملیز بھی مدعو تھیں۔ یہ تھیں پاک پور سرامکس کے انجینئر آصف اور ان کی بیگم نائیلہ بھابھی اور ایس ڈی او واپڈا چوہدری شمعون اور ان کی بیگم، (اتفاق سے ان کا نام بھی نائیلہ ہی تھا)۔ آصف پاک پور سرامکس فیکٹری (پاک پور سرامکس برتن بنانے کی فیکٹری تھی، جس کے مالک صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ میر افضل خاں مرحوم تھے۔ وہ اس دور کے ارب پتی اور بیگم کلثوم سیف اللہ کے بھائی تھے۔) کی سرکاری رہائش میں رہتے تھے جبکہ شمعون لالہ موسیٰ شہر میں۔ جلد ہی ہم سب میں اچھی دوستی ہو گئی اور میری بیگم کی ان دونوں خواتین سے خاص طور پر مسز نائیلہ آصف سے۔
یہ بھی پڑھیں: لیسکو میں بدعنوان اہلکاروں کے خلاف ایکشن، ہر وہ کام کریں گے جو ادارے کے لیے بہتر ہے: سی ای او رمضان بٹ
دوستی اور خوشخبری
ان دونوں کی دوستی اتنی گہری تھی کہ جب اللہ نے میرے گھر پہلے بچے کی خوشخبری دی تو بھابھی نائیلہ ہی عظمیٰ کو لے کر سی ایم ایچ کھاریاں کینٹ کرنل ڈاکٹر فریدہ کے پاس گئیں تھیں اور مجھے آ کر یہ خوشخبری انہوں نے ہی سنائی تھی۔ شمعون سے دوستی کا فائدہ یہ ہوا کہ جب تک وہ ایس ڈی او واپڈا لالہ موسیٰ رہے، گرمیوں میں میرے گھر کا ایئر کنڈیشنر واپڈا کی بجلی پر مفت چلتا تھا۔ اس کے تبادلے کے بعد یہ سہولت بھی میں نے خود ہی واپس کر دی تھی۔ آصف بٹ سے تو آج بھی رابطہ ہے مگر شمعون سے ملے کئی دھائیاں بیت گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کی شہریوں کو دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی اطلاع 15 پر دینے کی ہدایت
شادی شدہ زندگی کی چال
شادی شدہ زندگی کی شروعات بھی کمال ہوتی ہیں۔ لڑکی اجنبی کسی اور خاندان سے، لڑکا کسی دوسرے سے۔ نہ جان، نہ پہچان۔ نہ ایک دوسرے کے خاندان کی عادات، رسوم سے واقفیت۔ ایسے میں عورت پر نئے گھر میں خود کو ایڈ جسٹ کرنے کی زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ نئے لوگوں میں ایڈ جسٹ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لڑکے والے بھی آنے والی کو ایڈ جسٹ کرنے کا کھلے دل سے موقع، وقت اور مارجن کم ہی دیتے ہیں کہ نئی آنے والی خود کو نئے ماحول سے مانوس ہو کر سب میں گھل مل جائے۔ مگر یہاں تو آنے والی کا امتحانی پیپر پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ روز نیا سوال، نیا امتحانی مرکز۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔