بجٹ میں 3 اور 5 مرلہ گھروں کے لیے شرح سود کی سبسڈی پر کام جاری

اسلام آباد میں رہائشی منصوبے
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) آئندہ بجٹ میں 3 اور 5 مرلہ گھروں کے لیے شرح سود کی سبسڈی پر کام جاری ہے۔ حکومت 10 سے 12 سال کی ادائیگی کی مدت پر مشتمل ایک سستا پیکج تیار کرنے میں مصروف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں رہ کر جنت جانے کی ممکنات، امریکا کا مقابلہ کرتے ہوئے – ذاکر نائیک
مقامی رہائشی یونٹس کی کمی
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق ملک میں اندازاً 14 ملین رہائشی یونٹس کی کمی کے پیش نظر حکومت آئندہ بجٹ میں 3 اور 5 مرلہ گھروں کے لیے شرح سود کی سبسڈی اور 10 سے 12 سال کی ادائیگی کی مدت پر مشتمل ایک سستا پیکج تیار کرنے پر کام کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت ہاٹ لائن کھلی ہوئی ہے، امید ہے سیز فائر برقرار رہے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
وزیراعظم آفس کی کوششیں
تاہم، وزیراعظم آفس (پی ایم او) بھی ملک بھر میں اپنا پہلا گھر بنانے والوں کے لیے 10 مرلہ رہائشی یونٹس پر اس ممکنہ سبسڈی کو بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے لیکن آئی ایم ایف اس پر اعتراض اٹھا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اداکار اور میزبان ساحر لودھی کی وائرل ویڈیوز پر اداکار یاسر نواز کی جانب سے ٹرولنگ
اقتصادی تجزیے
تین اور 5 مرلہ کے لیے سود کی سبسڈی کا ممکنہ خرچ سالانہ 50 سے 70 ارب روپے تک ہو سکتا ہے، لیکن 10 مرلہ کے لیے یہ خرچ یقینی طور پر زیادہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بینظیر انکم سپورٹ صارفین کے بینک اکاﺅنٹ کھلوانے کا فیصلہ
بینکنگ سیکٹر کی مشکلات
ملک میں بینکنگ سیکٹر کو مارگیج فنانسنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بقایا قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے وقت عدالتوں سے اسٹے آرڈرز جاری ہونے کا معاملہ اٹھایا۔ قانونی تبدیلیاں کی گئیں لیکن مزید طریقہ کار کی ضروریات ہو سکتی ہیں جو پاکستان میں رہن کے مالیات (مارگیج فنانسنگ) کو فروغ دینے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ الیکشن: 2 ایم پی ایز کا مشال یوسفزئی کے تجویز اور تائید کنندہ بننے سے انکار
بینکوں کی تشویش
ملک میں سستی رہائش سے متعلق حالیہ ملاقاتوں میں تقریباً تمام بینکوں کے نمائندوں نے بقایا اقساط کی وصولی میں حائل قانونی رکاوٹوں کا مسئلہ اٹھایا۔ چنانچہ تعمیراتی اور ہاؤسنگ سیکٹر کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے سے پہلے اسے حل کرنے کے لیے وزارت قانون سے مشاورت کی گئی۔
مردم شماری کے اعداد و شمار
ملک میں تازہ ترین مردم شماری کے مطابق تقریباً 30 ملین کچا/پکا رہائشی یونٹس موجود ہیں، لیکن اگر معیاری رہائش کی ضروریات کی بنیاد پر کمی کا تجزیہ کیا جائے تو ملک میں رہائشی یونٹس کی کمی کے حوالے سے درست ڈیٹا موجود نہیں ہے۔