ثنا یوسف قتل کیس، مقدمہ اتنا کمزور ہے کہ ملزم کیخلاف تمام تر شہادتیں بھی اکٹھی کرلی جائیں تو بھی ۔ ۔ ۔ سینئر صحافی نے تشویشناک بات بتادی۔
مقدمہ کی تفصیلات
اسلام آباد، لاہور (ویب ڈیسک) ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کیا جاچکا ہے جو شناخت پریڈ کے لیے جیل میں بند ہے۔ تاہم اب سینئر صحافی نعیم مصطفیٰ نے بتایا کہ ایف آئی آر اتنی کمزور ہے کہ ملزم عمر حیات کو تمام تر شہادتیں اکٹھی کرلی جائیں تو بھی سزا دلوانا مشکل ہوگا، ناممکن نہیں کہہ رہا۔
یہ بھی پڑھیں: منی مزدا ٹرانسپورٹرز کی محکمہ ایکسائز کے خلاف ملک گیر پہیہ جام ہڑتال
ایف آئی آر کی کمزوریاں
سنو ڈیجیٹل کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نعیم مصطفیٰ نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلی کمزوری یہ ہے کہ ایف آئی آر میں عینی شہادت موجود نہیں، ایف آئی آر ٹمپرڈ لگتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب بھر کے پارکس اور باغات میں سگریٹ نوشی اور ویپنگ پر پابندی
مدعیہ کا موقف
مدعیہ جو مقتولہ کی والدہ ہے اس کا ایک موقف میڈیا کی بھی زینت بنا کہ گھر سے باہر تھی لیکن مقدمے میں خود کو گھر پر ظاہر کیا، ظاہر ہے کہ پولیس کی بھی مجبوری ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برسوں سے زیرالتوا مقدمات ٹارگٹ ہیں، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ
مقدمے کی مزید کمزوریاں
اسی طرح صرف پستول کا لفظ بھی ادھورا ہے۔ مقدمے میں وجہ عناد کا ذکر نہیں اور ملزم نامعلوم ہے۔ ساری شہادتیں تکنیکی بنیادوں پر لی گئی ہیں، اب چالان بھی تکنیکی بنیادوں پر تیار ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: انٹربینک میں ڈالر سستا ، نئی قیمت سامنے آ گئی
گرفتاری کی وضاحت
نعیم مصطفیٰ نے مزید کہا کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اتنی بڑی واردات کرنے کے بعد ملزم بھاگ کر اپنے گھر چلا گیا، وہیں سے گرفتار ہوتا ہے۔ پولیس کے بقول فون اور آلہ قتل بھی گھر سے برآمد ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی جیل کے ایک کمرے نہیں،7 سیلز پرمشتمل کمپلیکس میں ہیں، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل
تفتیشی ماہرین کی رائے
نعیم مصطفیٰ نے مزید بتایا کہ تفتیشی ماہرین کہتے ہیں کہ کمزور ایف آئی آر کے باوجود کیس مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ تکنیکی بنیاد پر ہی شہادتیں اکٹھی ہوسکتی ہیں، چانس کے شواہد شامل کیے جاسکتے ہیں جیسے کہ تفتیشی ٹیم موقع پر پہنچی تو امام مسجد نے یہ بتایا یا یہ کہ ایک ریڑھی بان نے یہ بات بتائی ہے۔
فارنزک لیب کی اہمیت
ایک بات اہم ہے کہ اسلام آباد میں کوئی ایسی فارنزک لیب نہیں جہاں ان سب چیزوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے۔ پنجاب فارنزک لیب میں ڈیٹا آئے گا اور اس کو آپس میں جوڑا اور برآمد ہونے والی چیزوں کے حقیقی ہونے یا چھیڑ چھاڑ ہونے کا جائزہ لیا جائے گا۔ جائے وقوعہ سے پولیس کو دو خول بھی مل گئے ہیں جو کہ مقتولہ کو آنے والے زخموں سے مطابقت رکھیں گے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے ہوگی لیکن یہ سارا کیس تفتیشی افسر کی ذہانت پر ہے، ساری تکنیکی اور حقیقی شہادتیں اکٹھی نہیں ہوتی تو اس کا فائدہ ملزم کو ہی ہوگا۔








