زمین سے پینے کا پانی نکالنے کی وجہ سے دنیا کے کئی شہر تیزی سے ڈوبنے لگے

دنیا کے ساحلی شہروں کی تشویشناک صورتحال
سنگاپور (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایک نئی تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے ساحلی شہر "پریشان کن رفتار" سے ڈوب رہے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ زیر زمین پانی کا بے تحاشا استعمال ہے۔ سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنولوجیکل یونیورسٹی (این ٹی یو) کی اس تحقیق میں ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے 48 ساحلی شہروں کا مطالعہ کیا گیا۔ یہ شہر خاص طور پر سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور زمین کے دھنسنے کے امتزاج کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر کل سمپوزیم کا انعقاد
جکارتہ: ایک تیزی سے ڈوبتا شہر
بی بی سی کے مطابق انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ دنیا کے تیزی سے ڈوبتے شہروں میں سے ایک ہے۔ ارنا جو شمالی جکارتہ میں رہتی ہیں، بتاتی ہیں کہ 22 سال پہلے ان کے گھر کی کھڑکیاں ان کے سینے تک تھیں، اب وہ گھٹنے کی اونچائی پر آ گئی ہیں۔ ان کے گھر کو 1970 کی دہائی میں بنایا گیا تھا اور اب اس کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، اور زمین کو دوبارہ سطح پر لانے کے لیے کئی بار کنکریٹ کی موٹی تہیں ڈالی گئی ہیں۔ جکارتہ کا تقریباً نصف حصہ اب سطح سمندر سے نیچے ہے، جس کی وجہ اس کا دلدلی زمین پر واقع ہونا اور 13 دریاؤں کا سمندر میں گرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مندی، انڈیکس میں 150 پوائنٹس کی کمی
زمین کے دھنسنے کی وجوہات
تحقیق کے مطابق زمین کے دھنسنے کی سب سے عام وجہ زیر زمین پانی کا ضرورت سے زیادہ نکالنا ہے۔ دنیا بھر میں گھریلو استعمال کے لیے استعمال ہونے والے نصف پانی کا تعلق زیر زمین پانی سے ہے۔ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ تازہ پانی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے، اور بہت سے لوگ اپنے کنویں کھود کر پانی نکالتے ہیں۔ اس سے زمین میں موجود مٹی سکڑ جاتی ہے اور سطح نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ این ٹی یو کی محقق چریل ٹے کا کہنا ہے کہ بہت سے ڈوبتے شہر ایشیا یا جنوب مشرقی ایشیا میں ہیں، جہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور ترقی کی وجہ سے پانی کی طلب زیادہ ہے۔ اس سے سیلاب زیادہ شدت سے آتے ہیں اور زرعی زمین اور پینے کے پانی کے معیار کو متاثر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 13 شادیاں کرنے والی فرضی دلہنوں کا گینگ بے نقاب، کتنی خواتین گرفتار ہوئیں؟ جانیے
سیلاب سے بچاؤ کی تدابیر
کئی شہروں نے سیلاب سے بچنے کے لیے دیواریں اور رکاوٹیں کھڑی کی ہیں، لیکن اس سے "باؤل ایفیکٹ" پیدا ہو سکتا ہے، یعنی بارش اور دریا کا پانی شہر میں پھنس جاتا ہے۔ جکارتہ اور ہو چی منہ سٹی جیسے شہروں نے اضافی پانی کو نکالنے کے لیے پمپنگ سٹیشن بھی بنائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوئی جنگ، کوئی طاقت پاکستان کو اقتصادی ترقی کے بنیادی ایجنڈے سے نہیں ہٹا سکتی: احسن اقبال
مشکلات اور ممکنہ حل
تاہم، ٹوکیو نے اس مسئلے سے مختلف طریقے سے نمٹا۔ 1970 کی دہائی میں زیر زمین پانی نکالنے پر سخت پابندیاں عائد کرنے اور واٹر سپلائی مینجمنٹ سسٹم بنانے کے بعد ٹوکیو میں زمین کا دھنسنا نمایاں طور پر کم ہو گیا۔ شنگھائی نے "واٹر انجیکشن" کا طریقہ استعمال کیا، جس میں یانگسی دریا سے صاف پانی زیر زمین ڈالا گیا۔ چونگ کنگ اور سان سلواڈور جیسے شہروں نے "اسپنج سٹیز" کے اصول اپنائے ہیں، جس میں سڑکوں اور عمارتوں کو پانی جذب کرنے والے مواد سے بنایا جاتا ہے۔
آنے والے چیلنجز
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حل مہنگے ہیں اور ان کو وسیع پیمانے پر لاگو کرنا مشکل ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی سیاسی عزم کی بھی ضرورت ہے تاکہ زیر زمین پانی نکالنے پر پابندیوں جیسے مشکل فیصلے کیے جا سکیں۔ اگر کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی تو ارنا جیسے لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو دھنسنے سے نہیں بچا پائیں گے۔