لاہور پاکستان کا سب سے بڑا، جدید اور خوبصورت جنکشن ہے، تقسیم ہند سے قبل بھی عظیم اسٹیشن مانا جاتا تھا انگریز حکومت نے تعمیر پر جی بھر کے پیسہ لگایا۔

تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 150
یہ بھی پڑھیں: بابر سلیم سواتی کرپشن الزامات سے بری، احتساب کمیٹی کی رپورٹ سامنے آگئی
افتتاحی تقریب
انجن کو بہت مضبوط رسوں سے باندھ کر آہستہ آہستہ لکڑی کے بڑے بڑے گول شہتیروں اور فولادی پائپوں پر کھینچتے ہوئے تقریب کے مقام پر پہنچایا گیا، جہاں تالیاں بجا کر اور بینڈ باجوں کی خوبصورت دھنوں سے اس کا استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر بہت تقریبات ہوئیں اور انگریز جوڑے ایک دوسرے میں مگن ہو کر خوب ناچا کیے۔ اہل لاہور کو ریل گاڑی کے مستقبل میں باقاعدہ آغاز کی مبارکباد دی گئی، جو جلد ہی یہاں سے مختلف علاقوں، مثلاً سندھ، پنجاب، سرحد اور اندرون ہندوستان کی طرف جانے والی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی: سکردو اور گلگت کی تمام پروازیں منسوخ
ریل کی پٹریوں کا قیام
چوبرجی سے لاہور اسٹیشن تک عارضی ریل کی پٹری بنائی گئی تھی، جس کے ذریعے انجن کو دھکیلتے ہوئے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچاکر اسے باقاعدہ پٹڑی پر چڑھایا گیا اور دولہا بنا کر ایک طرف کھڑا کر دیا گیا۔ یہ پہلا اور آخری انجن تھا جو دریائی سفر کرکے لاہور پہنچا تھا۔ یہ ابھی اسٹیشن پر کھڑا اپنی تھکاوٹ ہی دور کر رہا تھا کہ اگلے کچھ دنوں بعد یعنی اپریل 1862ء میں لاہور سے امرتسر اور دہلی کی ریلوے لائن بھی مکمل ہو کر عملی طور پر فعال ہو گئی، اور یوں اس کے کچھ اور رقیبوں کے آنے راستہ بھی صاف ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کے صدر نے شہبازشریف کو بتایا کہ سپریم لیڈر نے گیس پائپ لائن پر مزید قانونی کارروائی سے روکدیا ہے اور بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کی : حامد میر
ریلوے کا ترقیاتی مرحلہ
وسطی ہندوستان سے ریل کا رابطہ قائم ہونے کے فوراً بعد اس راستے سے دھڑا دھڑ انجن، مسافر گاڑیوں کے ڈبے اور مال گاڑیوں کی ویگنیں لاہور پہنچنے لگیں۔ مطلوبہ تعداد پوری ہونے پر محکمہ ریلوے نے ان کو باقاعدہ گاڑیوں کی شکل دیکر ایک مربوط نظام الاوقات کے تحت مختلف اطراف کو بھیجنا شروع کر دیا۔ لاہور سٹیشن کے ساتھ ہی بنے ہوئے شنٹنگ یارڈ میں ڈبوں کو جوڑ کر ریل گاڑی بنانے کا منظر دیکھنے کی خاطر لوگ پلوں اور بلند مقامات پر چڑھ جاتے تھے۔ اگلے ایک سال کے اندر لاہور کا ریلوے جنکشن مکمل طور پر فعال ہو گیا تھا، اب وہاں دن رات انجنوں کی سیٹیاں اور پھھنکاریں سنائی دینے لگی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان امن کے لئے تیار، بھارت کو ایک قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہے: بلاول بھٹو
لاہور جنکشن
لاہور پاکستان کا سب سے بڑا، جدید اور خوبصورت جنکشن ہے۔ اس کی عالیشان، ہوادار اور روشن عمارت اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کل 11 پلیٹ فارم ہیں جو پاکستان کے کسی بھی اسٹیشن سے زیادہ ہیں۔ لاہور سے پاکستان میں تقریباً ہر جگہ کے لیے ایکسپریس اور پسنجر گاڑیاں چلتی ہیں، جن میں سے کچھ تو براہ راست اپنی منزل کی طرف جاتی ہیں اور کچھ بالواسطہ طور پر برانچ لائنوں کے ذریعے اس سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سے سمجھوتہ ایکسپریس کے نام سے ہندوستان کے شہر امرتسر اور دہلی کے لیے بھی گاڑی چلتی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل بھی لاہور ایک بہت ہی عظیم اسٹیشن مانا جاتا تھا اور انگریز حکومت نے اس کی تعمیر پر جی بھر کے پیسہ لگایا تھا۔ یہ عظمت 1947ء تک پوری شان و شوکت سے قائم رہی۔ یہاں سے ریل کے ذریعے سارے ہندوستان میں پہنچا جا سکتا تھا۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔