قربانی — رسم سے روح تک

تحریر کا آغاز
تحریر : رانا بلال یوسف
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی، شرحِ سود، توانائی کے نرخوں میں کمی خوش آئند ہے: جام کمال
قربانی کا موسم
ذوالحجہ کی ہوائیں جب قربانی کے موسم کی دستک دیتی ہیں، تو فضاء میں کچھ اور ہی رنگ بھرنے لگتے ہیں۔ صرف جانوروں کی آوازیں نہیں گونجتیں—دل کی ایک بےآواز تڑپ بھی جاگ اٹھتی ہے، جو ہر برس اس مقدس موسم میں ہم سے ایک سوال کرتی ہے: کیا تم نے اس بار صرف جانور خریدا ہے، یا اپنا نفس بھی تیار کیا ہے؟ عیدالاضحیٰ محض ایک تہوار نہیں، بلکہ ایک روحانی پکار ہے—ایسی پکار جو ہمیں رسم سے روح کی طرف بلاتی ہے۔ قربانی صرف گوشت کی تقسیم، مہنگے جانوروں کی خریداری یا سوشل تقریبات کا نام نہیں۔ درحقیقت، یہ ایک باطنی صدائے بازگشت ہے، جو انسان کو نفس کی غلامی سے نکال کر رضا، اخلاص، اور تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہمیں صرف ذبح سکھانے نہیں آئی، بلکہ یہ یاد دلانے آئی ہے کہ اللہ کے لیے اپنی عزیز ترین شے کو چھوڑ دینا ہی اصل بندگی ہے—چاہے وہ مال ہو، انا ہو یا نفس کی سرکشی۔
یہ بھی پڑھیں: اڈیالہ جیل میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی تک رسائی کا معاملہ، کیا اصلاحاتی کمیٹی کو ملنے سے روکا گیا۔۔۔؟اہم تفصیلات سامنے آ گئیں
قرآنی تعلیمات کا پس منظر
قرآن کریم اعلان کرتا ہے: ترجمہ ’’نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (الحج 22:37)۔ اس اعلان کے پس منظر میں قربانی صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں، بلکہ ایک باطنی بیداری کا عمل ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم نے جانور خریدا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے دل کی کتنی میل دھوئی؟ کیا ہم نے کسی پرانے رنجش کو مٹایا؟ کسی دشمن کو معاف کیا؟ کسی رشتے کو نبھانے کے لیے اپنی ضد کو قربان کیا؟ اگر نہیں، تو جانور کی قربانی ایک ظاہری رسم تو ہو سکتی ہے، لیکن روحانی عبادت نہیں۔ عبادت وہی بنتی ہے جس میں بندہ اپنی ’’میں‘‘ کو مٹا کر ’’ہم‘‘ بننے کا ہنر سیکھے۔ یہی وہ قربانی ہے جو نہ صرف ذات کو پاک کرتی ہے بلکہ سماج کو بھی انسانیت سے روشن کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یوکرین میں ہر کلومیٹر پر 27 روسی فوجی ہلاک ہوئے، بی بی سی کی تحقیق میں دعویٰ
نمود و نمائش کا غلبہ
بدقسمتی سے، آج قربانی جیسا مقدس عمل بھی نمود و نمائش کی منڈی میں فروخت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مہنگے جانور، ان کی قیمتوں کا اعلان، اور تصویری مقابلے۔ یوں لگتا ہے جیسے عبادت نہیں ہو رہی، بلکہ ایک طبقاتی شو کی تیاری ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر اب قربانی کا مفہوم بدل چکا ہے۔ TikTok ویڈیوز، Instagram Reels، YouTube Vlogs اور Facebook پوسٹس میں جس طرح قربانی کو ’’کانٹینٹ‘‘ میں بدلا جا رہا ہے، وہ روح کو زخمی کر دیتا ہے۔ جن ہاتھوں میں کبھی دعا ہوتی تھی، آج وہاں کیمرے ہیں؛ جن نظروں میں کبھی خشیت ہوتی تھی، آج وہاں لائیکس اور شیئرز کی فکر ہے۔ یہ رویہ اس عبادت کو بھی معاشی برتری، برانڈنگ، اور خودنمائی کے ایک اسٹیج میں تبدیل کر رہا ہے۔ اصل سوال یہ ہے: کیا ہم واقعی قربانی اللہ کے لیے کر رہے ہیں یا اپنی تشہیر، شہرت، اور فالوورز کی بھوک کے لیے؟ جب نیت کی سچائی رخصت ہو جائے، تو عبادت خالی خول بن جاتی ہے۔ گوشت کا بانٹنا آسان ہے، خلوص بانٹنا مشکل۔ مگر قربانی کی اصل روح وہیں جاگتی ہے، جہاں عمل کے پیچھے دل کی گواہی ہو، اور نیت میں ریاکاری نہیں، اخلاص ہو۔
یہ بھی پڑھیں: ہائے موٹاپا ۔۔۔۔(مسکرائیے )
نفس کی اصلاح کی دعوت
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات ہمیں بار بار ’’نفس‘‘ کی اصلاح کی دعوت دیتی ہیں۔ انسان کے اندر نفسِ امارہ (جو برائی پر اکساتا ہے)، نفسِ لوّامہ (جو ملامت کرتا ہے)، اور نفسِ مطمئنہ (جو اللہ کے ذکر میں سکون پاتا ہے) جیسے باطنی کردار موجود ہوتے ہیں۔ قربانی کا اصل جوہر اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب انسان جانور کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی حیوانیت کو بھی ذبح کرنے کی کوشش کرے۔ اگر صرف ذبح کرنا کافی ہوتا تو جانور بھی اللہ کے مقرب ہو جاتے۔ اصل تقرب دل کی نرمی، نظر کی پاکیزگی، اور نیت کے اخلاص میں ہے۔ حسد، کینہ، خودپسندی، اور ریاکاری—یہ وہ '''اندرونی درندے''' ہیں جنہیں اگر ہم عید کے دن بھی قربان نہ کریں، تو جانور کا خون بہانا محض رسم بن کر رہ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیسلا پائے: سولر چارجنگ اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے جڑے موبائل فون جو ابھی حقیقت سے کافی دور ہیں
علماء کی آراء
یہ بات کوئی نئی نہیں۔ صدیوں پہلے ہمارے علماء اور صوفیاء نے اسی پہلو پر زور دیا ہے۔ امام ابو حامد الغزالیؒ اپنی شہرۂ آفاق تصنیف احیاء علوم الدین کے ’’کتاب الاسرار‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا معیار جانور کی جسامت نہیں بلکہ نیت کا اخلاص اور دل کا تقویٰ ہے۔ امام ابن قیم الجوزیہؒ زاد المعاد میں لکھتے ہیں کہ قربانی کا اصل مفہوم اللہ کی اطاعت میں دل کو جھکانا ہے، اور یہ عمل صرف چاقو سے نہیں، بلکہ عاجزی اور شعور سے مکمل ہوتا ہے۔ گویا ہمارے اکابرین نے ہمیں سمجھایا کہ قربانی ایک باطنی سفر ہے، جو رسم سے نکل کر روح کی گہرائی تک لے جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟
روحانی تسلسل کی شاعری
اسی روحانی تسلسل کو صوفی شعراء نے اپنے کلام میں بے مثال انداز میں بیان کیا ہے۔ مولانا رومیؒ مثنوی معنوی میں بارہا بیان کرتے ہیں کہ اصل قربانی وہی ہے جو انسان اپنی نفس پر کرتا ہے۔جب خواہش فنا ہو جائے اور بندہ خود کو اللہ کی رضا کے سپرد کر دے۔ علامہ اقبالؒ بھی بالِ جبریل میں یہی پیغام دیتے ہیں کہ انا کی فنا، ہی اصل قربانی ہے۔ جب خودی اللہ کی مرضی میں گم ہو جائے تو یہی فنا دراصل بقاء ہے۔ ان بزرگوں کی صدائیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ قربانی چھری سے نہیں، دل سے شروع ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر کو فرنٹ پرلانے کا یہ بہترین وقت ہے: مشعال ملک
نئی سوچ کی ضرورت
قربانی کی اصل روح یہی ہے کہ انسان اپنی انا کو فنا کر کے اللہ کی رضا کے لیے جیئے۔ یہ کوئی شاعرانہ خیال نہیں، بلکہ ایک عملی دعوت ہے۔اپنے اندر کے اس غرور کو مٹانے کی جو رشتے توڑ دیتا ہے، اس ضد کو دفن کرنے کی جو محبت کا گلا گھونٹ دیتی ہے، اور اس بےصبری کو قابو میں لانے کی جو صبر کے ثمر کو پنپنے نہیں دیتی۔ اگر ہم قربانی کے دن صرف جانور کے گلے پر چھری چلا کر یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہمارا فرض ادا ہو گیا، تو یہ خودفریبی ہے۔ اصل قربانی وہ ہے جو ہمارے دل، رویئے اور طرزِ زندگی میں تبدیلی لائے۔جو ہمیں ظاہری مسلمان سے باطنی بندۂ خدا بننے کی طرف لے جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کے اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے مناظر
سچی قربانیاں
آج اگر کوئی نوجوان اپنی خواہشات کو قربان کر کے والدین کی خدمت کرتا ہے، کوئی عورت صبر سے گھر بچاتی ہے، کوئی شخص دوسروں کو اپنے رزق میں شریک کرتا ہے، یا کوئی دل کا زخمی انسان معاف کر کے کسی کو نئی زندگی دیتا ہے—تو یہی وہ قربانیاں ہیں جن سے معاشرہ جنت کا عکس بن سکتا ہے۔ مگر ہم نے اس عبادت کو صرف گوشت کھانے اور تصویریں پوسٹ کرنے کا موقع بنا لیا ہے۔ سوال یہ ہے: کیا یہی وہ عید ہے جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھی تھی؟ یا وہ عید جس کے لیے دلوں کو نرم، نیتوں کو پاک اور رشتوں کو محفوظ بنانا مقصود تھا؟
آخری پیغام
اس بار، صرف گوشت نہ بانٹیں—معافی بھی بانٹیں، خلوص بھی بانٹیں، محبت بھی بانٹیں۔ اور ہاں… اپنا نفس بھی قربان کریں۔ کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں رسم، روح میں ڈھلتی ہے؛ اور عبادت، اثر رکھتی ہے۔ جب انسان دل سے صاف، نیت میں خالص اور عمل میں سچا ہو جائے، تو قربانی فقط جانور کا ذبح نہیں رہتی، بلکہ ایک انسانی نجات کا سفر بن جاتی ہے۔
اور شاید تب ہی آسمان کے فرشتے، حیرت سے دیکھ کر کہیں:
’’یہی تو وہ انسان ہے… جس کے لیے ہم نے سجدہ کیا تھا۔‘‘
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں