بجٹ عوامی فلاح کے بجائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کی ایک مشق معلوم ہوتا ہے، اسد قیصر
بجٹ کی نئی تشکیلات پر اسد قیصر کا ردعمل
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے ایک ایسا بجٹ پیش کیا ہے جس سے عوام کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: 26 ویں آئینی ترمیم کا مقصد پارلیمان کو عدلیہ کا زیر نگیں ہونے سے بچانا ہے، خواجہ آصف
ای کامرس اور نوجوانوں کے روزگار پر اثرات
اس بجٹ میں ای کامرس جیسے ابھرتے ہوئے شعبے پر مزید ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں، جس سے نہ صرف نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہوں گے بلکہ ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کی کوششوں کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔
یہ بھی پڑھیں: لکی مروت میں پولیس موبائل پرکٹوخیل اڈہ کے قریب دھماکا، ایک اہلکار شہید، 3 زخمی
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بلاواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا دیا گیا ہے، جبکہ بڑی کارپوریشنز اور اشرافیہ کو بدستور ریلیف دیا جا رہا ہے، جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے گرفتار 5 سینئر رہنماؤں کا جیل سے خط، حکومت اور پارٹی رہنماؤں کو کیا ’’مشورہ‘‘ دیدیا ؟ جانیے
عوام کی موجودہ مشکلات
عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بے یقینی کا شکار ہیں، ایسے میں بجٹ میں روزمرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ کر کے عام شہری کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بینک آف انگلینڈ نے شرح سود میں کمی کا اعلان کردیا
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کا استحصال
ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد، جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے لیے نہ کوئی سہولت دی گئی ہے اور نہ ہی آسان قرض سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی میں اکیڈمی پرنسپل کی شادی کا جھانسہ دیکر طالبہ سے زیادتی، 2 بار اسقاط حمل بھی کرائے
زرعی شعبے اور بنیادی سہولیات کی صورت حال
زرعی شعبے کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہی شعبہ دیہی معیشت کے استحکام اور خوراک کی قیمتوں میں توازن کے لیے نہایت اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سنبھل کی مسجد کے نیچے مندر کے دعوے کی وجوہات کیا ہیں؟
بنیادی شعبوں کے لیے ناکافی فنڈز
اس کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کے لیے ناکافی فنڈز مختص کیے گئے ہیں، جو کہ حکومت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے۔
بجٹ کے مقاصد پر سوالات
مجموعی طور پر یہ بجٹ عوامی فلاح کے بجائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کی ایک مشق معلوم ہوتا ہے، جس کا مقصد عام آدمی کو ریلیف دینا نہیں بلکہ اس پر مزید بوجھ ڈالنا ہے۔








