بجٹ عوامی فلاح کے بجائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کی ایک مشق معلوم ہوتا ہے، اسد قیصر
بجٹ کی نئی تشکیلات پر اسد قیصر کا ردعمل
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے ایک ایسا بجٹ پیش کیا ہے جس سے عوام کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: مخدوم علی خان جسٹس مسرت ہلالی کو مسز ہلالی کہہ گئے
ای کامرس اور نوجوانوں کے روزگار پر اثرات
اس بجٹ میں ای کامرس جیسے ابھرتے ہوئے شعبے پر مزید ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں، جس سے نہ صرف نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہوں گے بلکہ ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کی کوششوں کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔
یہ بھی پڑھیں: موجود حالات کے پیش نظر پاکستان اور بھارت نے ایشیاء کپ کھیلنے سے منع کیا تو۔۔۔؟سنیل گواسکر نے اہم سوال اٹھا دیا
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بلاواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا دیا گیا ہے، جبکہ بڑی کارپوریشنز اور اشرافیہ کو بدستور ریلیف دیا جا رہا ہے، جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 70 سال سے جس ستون کے سہارے مملکت قائم دائم ہے، مجھے اس ستون کی مضبوطی چاہیے: حفیظ اللہ نیازی
عوام کی موجودہ مشکلات
عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بے یقینی کا شکار ہیں، ایسے میں بجٹ میں روزمرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ کر کے عام شہری کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس نے افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کا استحصال
ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد، جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے لیے نہ کوئی سہولت دی گئی ہے اور نہ ہی آسان قرض سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے کس طرح اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایران کے دفاعی نظام کو مفلوج کیا؟ ویڈیوز سامنے آگئیں
زرعی شعبے اور بنیادی سہولیات کی صورت حال
زرعی شعبے کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہی شعبہ دیہی معیشت کے استحکام اور خوراک کی قیمتوں میں توازن کے لیے نہایت اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی سفارتی فتوحات، امریکہ کا اعتماد، اور بھارت کی پراپیگنڈہ مہم
بنیادی شعبوں کے لیے ناکافی فنڈز
اس کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں کے لیے ناکافی فنڈز مختص کیے گئے ہیں، جو کہ حکومت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے۔
بجٹ کے مقاصد پر سوالات
مجموعی طور پر یہ بجٹ عوامی فلاح کے بجائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کی ایک مشق معلوم ہوتا ہے، جس کا مقصد عام آدمی کو ریلیف دینا نہیں بلکہ اس پر مزید بوجھ ڈالنا ہے۔








