لاہور میں بے شمار تاریخی عمارتیں ہیں جہاں صدیوں کی تاریخ بکھری پڑی ہے، پاکستان کی فلمی صنعت کا بھی یہ شہر سب سے بڑا مرکز رہا ہے۔

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 153
یہ بھی پڑھیں: دفتری معاملات میں لکیر کھینچی جسکے اوپر کی غلطیوں کی معافی نہیں، پیسے کا لالچ نہیں نہ غلط کام کی ضرورت، دنیا کی سب سے بہترین موٹر پر دفتر آیا ہوں
لاہور کی خوبصورتی
لاہور اپنے خوبصورت باغات، سیر گاہوں اور عظیم درسگاہوں کی نسبت سے جانا جاتا ہے، جہاں سیکڑوں کی تعداد میں بہت اونچے پائے کے کالج اور اچھی شہرت کی حامل یونیورسٹیاں، میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کی تعلیم دینے کے ادارے قائم ہیں، جن میں سے کچھ تو ڈیڑھ سو برس سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی بیوروکریسی میں تقرر و تبادلے
تاریخی عمارتیں
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لاہور میں بے شمار تاریخی عمارتیں ہیں جہاں صدیوں کی تاریخ بکھری پڑی ہے۔ جن میں بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، مسجد وزیر خان اور شالامار باغ کے علاوہ ایشیاء کا سب سے بڑا عجائب گھر، نیشنل یونیورسٹی آف آرٹس اور متعدد نجی عجائب گھر بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فضائیہ کا طیارہ لبنانی حدود میں گر کر تباہ
فلمی صنعت کا مرکز
پاکستان کی فلمی صنعت کا بھی یہ سب سے بڑا مرکز رہا ہے۔ صدیوں پرانی اپنی ثقافتی روایات کو قائم رکھتے ہوئے یہاں درجنوں تھیٹر ہیں جہاں بے شمار ڈرامے اور تفریح طبع کے لیے کھیل تماشے پیش کیے جاتے ہیں۔ گو اب ان کا معیار ایسا نہیں رہا جس پر لاہور کے قصیدہ خواں فخر کر سکیں، مگر تفریح طبع کے لیے ان کی ابتدائی تاریخی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ سوات کی تحقیقاتی رپورٹ میں نظام کی ناکامی، اعلیٰ سطح کی نااہلی، زمین پر قبضوں کا انکشاف
جدیدیت کی جانب مائل
نئے زمانے کا لاہور اپنے قدامت پسند دور سے اس احتیاط کے ساتھ جدیدیت کی طرف مائل ہوا ہے کہ جہاں ایک طرف تو زمانہ حال کی ساری سہولتیں موجود ہیں، تو دوسری طرف اس نے اپنی صدیوں پرانی تاریخ، روایات اور ثقافت کو بھی سینے سے لگارکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کپل شرما شو کے معروف کامیڈین نے شو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا، وجہ بھی سامنے آگئی
پرانا شہر
آج بھی مغلوں کے زمانے کا 12 دروازوں والا پرانا شہر لاہور موجود ہے، گو اب وہ کسی چار دیواری کے اندر مقید نہیں ہے، بلکہ باہر نکل کر چاروں طرف سیکڑوں کلو میٹر کے علاقے میں پھیل گیا ہے۔ لاہورکے پرانے باشندے بھی اپنے آبائی ٹھکانے چھوڑ کر اندرون شہر سے باہر نکل آئے ہیں۔ پھربھی جو پیچھے رہ گئے ہیں انھوں نے کوشش کی ہے کہ اگر مکمل طور پر نہ صحیح تو کم از کم اپنی کچھ اچھی روایتوں اور ثقافتی قدروں کو بچا لیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: حکیم آفتاب احمد قرشی کا یادداشت اور حافظہ: تحریک پاکستان کے ایک لاکھ کارکنوں کے نام و پتے
ریلوے اور ہوائی اڈے
ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ساتھ یہاں ایک بین الاقوامی معیار کا خوبصورت ہوائی اڈہ بھی ہے جہاں سے ساری دنیا کے تمام بڑے شہروں سے فضائی رابطہ قائم ہے۔ اس شہر عظیم کو ریلوے اور ہوائی اڈے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں چاروں طرف پھیلے ہوئے موٹروے کے نیٹ ورک سے منسلک کر دیا گیا ہے۔
ریل گاڑیوں کا سفر
لاہور آ کر اکثر ریل گاڑیاں اپنا سفر موقوف کر دیتی ہیں مگر کچھ ایسی بھی ہیں جو یہاں سے اسی مرکزی لائن پر آگے شمال کی طرف یعنی راولپنڈی اور پشاور تک بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح یہاں سے بے شمار برانچ لائنیں بھی اپنے سفر کا آغاز کرکے مختلف شہروں کو روانہ ہو جاتی ہیں۔
آنے جانے کے اس چکر میں پیچھے سے یہاں پہنچ کر آگے بڑھ جانے والی گاڑیوں کے ساتھ آنے والی کچھ بوگیوں کو اپنا سفر مکمل ہونے پر ہٹا لیا جاتا ہے اور کچھ کو اس گاڑی میں شامل کرکے اس قافلے کا حصہ بنا کر آگے روانہ کر دیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔