انجینئرنگ کا کیڑا اسے چین نہیں لینے دیتا تھا، وہ میری ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھانے میں اب تک ناکام رہا، سخت الفاظ میں بات کی تو منہ سے جھاگ نکلنے لگی

مصنف کی شناخت
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 194
یہ بھی پڑھیں: چین یکسر بدل چکا ، جیتا جاگتا معاشی معجزہ ہے:وزیراعلیٰ مریم نواز نے مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے کی تجویز دیدی
انجینئرنگ کا کیڑا
ممتاز عزیر کے دماغ میں انجینئرنگ کا کیڑا اسے چین نہیں لینے دیتا تھا۔ وہ میری ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھانے میں اب تک ناکام رہا تھا۔ ایک روز میں نے کچھ ترقیاتی سکیمز کا دورہ کیا۔ ناقص میٹریل استعمال ہونے اور کام وقت پر مکمل نہ کرنے پر میں نے سخت الفاظ میں اس کی سرزنش کی اور جواب طلبی کی۔ کاپی اپنے ضلعی دفتر کو بھجوائی اور اے سی دفتر کو بھی۔ ضلعی دفتر سے تو جواب نہ آیا البتہ اے سی نے ممتاز کو بلا لیا۔ میری جواب طلبی حقائق پر مبنی تھی۔ اے سی نے بھی اسے سخت الفاظ میں بات کی تو اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور وہ بے ہوش سا ہوگیا۔ کچھ دیر میں ہوش میں آیا تو اے سی مجھے کہنے لگا؛ “اس خط کو pursue مت کرنا۔ لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔“ اس کے بعد وہ انجینئرنگ والا کیڑا اس کے دماغ سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔ اے سی کو کاپی بھجوانا میری غلطی تھی شاید۔ معاملہ میرے اپنے محکمہ کا تھا اے سی کو خامخواہ ہی involve کر لیا تھا۔ اس غلطی سے سبق سیکھتے آئندہ کبھی بھی محکمانہ معاملات میں ضلعی انتظامیہ کو شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اپر اور لوئرکرم میں امن معاہدے کے مطابق اسلحہ جمع کرانے کا سلسلہ جاری
لپ سروس کا تجربہ
ایک روز ایک صاحب چند آدمیوں کے ساتھ میرے دفتر میں داخل ہوا اور ان آدمیوں کو میرے دفتر بٹھا کر خود باہر نکل گیا۔ میں نے نائب قاصد سے کہہ کر انہیں باہر نکلوا دیا، وہ جاتے بولے؛ “تم نہیں جانتے یہ کون ہے؟“ میں نے ان کی بات سنی ان سنی کردی۔ تھوڑی دیر میں ایک شخص بدتمیزی کرتا دفتر داخل ہوا۔ یہ لیاقت علی نامی صحافی ”نوائے وقت“ کے لئے کام کرتا تھا۔ آتے ہی بولا؛ “تم جانتے نہیں مجھے۔ میں تمھارے خلاف خبر لگاؤں گا۔ تم نے جرأت کیسے کی میرے مہمانوں کو یہاں سے اٹھانے کی۔“ غصہ مجھے بھی بہت آیا لیکن میں نے تحمل سے اسے کہا؛ “آپ جو بھی ہو۔ میرے دفتر میں اس طرح کسی کو بٹھانے کی جرأت کیسی کی آپ نے۔ رہی بات تمھاری صحافت کی تو جو زبان تم نے استعمال کی ہے یہ کسی ان پڑھ جاہل کی تو سکتی ہے صحافی کی نہیں۔ ہاں اب میں اس بات کو بھی یقینی بناؤں گا کہ مجید نظامی (یہ اسلامیہ کالج میں میرے والد کے کلاس فیلو اور بڑے اچھے دوست تھے) صاحب کو بتاؤں کہ کیسے کیسے نمائندے ہیں آپ کے۔“ خیر وہ کچھ اور بولنا چاہتا تھا لیکن میں نے اسے دفتر سے نکالا۔ اس نے میرے خلاف راجہ یعقوب صاحب کو شکایت کی جنہوں نے اس کی تسلی کرا دی اور مجھے فون پر ایک سبق دیا جو ہمیشہ میں نے یاد رکھا؛ “ان صحافیوں کو لپ سروس دیتے ہیں۔“ یہ ”لپ سروس“ کی اصطلاح میرے لئے نئی ضرور تھی لیکن اس کا پیغام دور رس تھا۔ یہ تھی کسی بھی صحافی سے میری سرکاری ملازمت میں پہلی اور بڑی ناگوار ملاقات۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور کے علاقے سندر میں گاڑی پر فائرنگ، 6 افراد زخمی، 2 کی حالت تشویشناک
کولڈ شولڈر رویہ
1989ء میں باسٹھ (62) افسران کا نیا بیج پنجاب پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہو کر لالہ موسیٰ اکیڈمی تربیت کے لئے آیا۔ ان کے تربیتی پروگرام میں میرے دفتر اور میری ایک یونین کونسل ٹھکریاں کا فیلڈ وزٹ بھی شامل تھا۔ وزٹ والے دن خود گرم جوشی سے اپنے نئے ساتھیوں کو خوش آمدید کہا۔ دفتر اور فیلڈ کا سارا سٹاف حاضر تھا۔ سب کا تعارف نئے افسران سے کرایا۔ خود بریفنگ دی۔ دفتر کے لان میں پر تپاک چائے کا بندوبست کیا۔ ایسا ہی بندوبست دفتر یونین کونسل میں تھا۔ چیئرمین چوہدری ریاست ایڈووکیٹ، چوہدری اشرف ممبر ضلع کونسل گجرات تمام کونسلرز اور لالہ نذر موجود تھے۔ چیئرمین صاحب نے خود بریف کیا اور بعد میں کھانا کھلایا۔ یہ سب کچھ اس ”کولڈ شولڈر“ روئیے کا نتیجہ تھا جو مجھے جوائنگ دیتے وقت اپنے سنئیر سے فیلڈ وزٹ قلعہ دیدار سنگھ تک دیکھنے کو ملا تھا۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) اداریے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔