وفاقی بجٹ، زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ
تحریر کا آغاز
تحریر: خالد شہزاد فاروقی
سال 2025-26 کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو حسب روایت حکومت نے “اپنی کارکردگی کی قصیدہ گوئی” کے ساتھ “خوش فہمیوں” کے انبار لگا دیے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: خضدار سکول بس پر حملے میں شہید طلبہ کی تعداد 5 ہوگئی
بجٹ کی تفصیلات
وزراء نے دعویٰ کیا کہ یہ بجٹ عام آدمی کے لیے ہے، ملکی معیشت کو مستحکم کرے گا اور ترقی کی نئی راہیں کھولے گا مگر جب اس بجٹ کی تفصیلات پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ سب دعوے محض زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور “اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ” محسوس ہوتے ہیں۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کلفٹن چائنہ پورٹ کے قریب سے ملنے والی مرد و خاتون کی لاشوں کی شناخت ہوگئی
معاشی چیلنجز
ایک ایسے وقت میں جب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بیروزگاری عام ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور تعلیم و صحت کی صورتحال ابتر ہے، وہاں یہ بجٹ محض “طاقتور طبقے کی خوشنودی” اور عالمی مالیاتی اداروں کی خوشی حاصل کرنے کی ایک کوشش لگتا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف نے انٹرنیٹ کی بندش کا حل نکال لیا
بجٹ کی تفصیلات کی حقیقت
کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 17.5 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے مگر جب ہم اس خطیر رقم کا تجزیہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ بجٹ کا بیشتر حصہ عوامی فلاح و بہبود کے بجائے قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اخراجات اور اشرافیہ کی مراعات پر مشتمل ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ: مزید 36 ممالک کے شہریوں کے داخلے پر پابندی پر غور، کون سے ممالک شامل؟
سودی چکر
سب سے بڑا جھٹکا یہ ہے کہ اس بجٹ کا 46.7 فیصد حصہ یعنی تقریباً آدھا، محض سود کی ادائیگیوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔۔۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری معاشی خودمختاری کو نگل رہا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کے گروپ “کبابش پنک کلب” کی بنیاد رکھنے کا اعلان
عوامی فلاح و بہبود کے لیے کم سرمایہ کاری
ملک کے بنیادی مسائل مثلاً تعلیم، صحت، زراعت، صنعتی ترقی اور روزگار پر خرچ کرنے کے بجائے “سود خور نظام” کی پرورش کی جا رہی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی جی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان پر سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا جواب بھی سامنے آگیا
دفاعی اخراجات
دفاعی اخراجات 14.5 فیصد رکھے گئے ہیں۔۔۔ اگرچہ قومی سلامتی بے حد اہم ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ملک کا اندرونی معاشی و سماجی ڈھانچہ برباد ہو چکا ہو، تو کیا ہم خالی بندوقوں سے قومی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: پچ سے متعلق غلط پیشگوئی پر ڈیوڈ وارنر نے شاہین کا مذاق اڑادیا
گرنٹس اور سبسڈی
گرانٹس یعنی سرکاری اداروں کو دی جانے والی بلا سود امداد 11 فیصد ہے، جبکہ سبسڈی صرف 6.7 فیصد رکھی گئی ہے، حالانکہ مہنگائی کی شدت نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: گالیاں دینے پر مزدور نے مالکن کو قتل کردیا، لاش پر کودنے کی ویڈیو بھی بنالی
بنیادی خدمات کی خراب صورتحال
تعلیم اور صحت کی صورتحال تو انتہائی دردناک ہے۔۔۔ ہزاروں سکول بغیر اساتذہ، لاکھوں بچے سکول سے باہر، سرکاری ہسپتال دوائیوں سے خالی۔۔۔ مگر ان دو اہم شعبوں پر بجٹ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت نے سموگ پابندیوں میں مزید نرمی کردی
حکومتی ناکامی
ایک ایسا بجٹ جس میں آدھی سے زیادہ رقم سود میں چلی جائے، باقی دفاع، گرانٹس، بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی عیاشی پر خرچ ہو اور عوام کے لیے چند فیصد چھوڑ دیے جائیں، اسے “عوام دوست بجٹ” کہنا خود فریبی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا سے ٹی ٹوئنٹی سریز میں وائٹ واش ہونے کے بعد قومی ٹیم کے کپتان کی گفتگو
حکومت کی نااہلی
عوام کو اس وقت صرف مہنگائی ہی نہیں مار رہی بلکہ حکومت کی نااہلی، بدنیتی اور غلامانہ سوچ بھی اس بربادی کی بڑی وجہ ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ ہاؤس پنجاب کا ملازم پراسرار طور پر جاں بحق
عملی جدوجہد کی ضرورت
یہ وقت محض تنقید کا نہیں، عملی جدوجہد کا ہے۔۔۔ ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے اور حقیقی ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ثنا یوسف کے قاتل کی گرفتاری کے لیے پولیس نے کتنی سی سی ٹی وی ویڈیوز جمع کیں اور کتنی فون کالز کا تجزیہ کیا؟ آئی جی اسلام آباد کے اہم انکشافات
نوٹ
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
شمولیت کی دعوت
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ‘[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔








