وفاقی بجٹ، زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ

تحریر کا آغاز
تحریر: خالد شہزاد فاروقی
سال 2025-26 کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو حسب روایت حکومت نے “اپنی کارکردگی کی قصیدہ گوئی” کے ساتھ “خوش فہمیوں” کے انبار لگا دیے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: افریقی ملک چاڈ کا ٹرمپ کی پابندی پر دوٹوک جواب، امریکیوں کے ویزے روک دیے
بجٹ کی تفصیلات
وزراء نے دعویٰ کیا کہ یہ بجٹ عام آدمی کے لیے ہے، ملکی معیشت کو مستحکم کرے گا اور ترقی کی نئی راہیں کھولے گا مگر جب اس بجٹ کی تفصیلات پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ سب دعوے محض زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور “اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ” محسوس ہوتے ہیں۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے این پی ٹی سے الگ ہونے کی دھمکی دے دی
معاشی چیلنجز
ایک ایسے وقت میں جب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بیروزگاری عام ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور تعلیم و صحت کی صورتحال ابتر ہے، وہاں یہ بجٹ محض “طاقتور طبقے کی خوشنودی” اور عالمی مالیاتی اداروں کی خوشی حاصل کرنے کی ایک کوشش لگتا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: خواہش ہے خیبرپختونخوا میں تبدیلی پی ٹی آئی کے اندر سے ہی آئے، مولانا فضل الرحمان
بجٹ کی تفصیلات کی حقیقت
کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 17.5 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے مگر جب ہم اس خطیر رقم کا تجزیہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ بجٹ کا بیشتر حصہ عوامی فلاح و بہبود کے بجائے قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اخراجات اور اشرافیہ کی مراعات پر مشتمل ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: مجوزہ آئینی ترمیم کے ڈرافٹ سے کونسی شقیں کس کے کہنے پر نکال دی گئیں۔۔؟ عاصمہ شیرازی نے تہلکہ خیز انکشاف کر دیا
سودی چکر
سب سے بڑا جھٹکا یہ ہے کہ اس بجٹ کا 46.7 فیصد حصہ یعنی تقریباً آدھا، محض سود کی ادائیگیوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔۔۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری معاشی خودمختاری کو نگل رہا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ میں ناکامی کے بعد بھارت کو سفارتکاری کا خیال آہی گیا، 7 ٹیمیں تشکیل
عوامی فلاح و بہبود کے لیے کم سرمایہ کاری
ملک کے بنیادی مسائل مثلاً تعلیم، صحت، زراعت، صنعتی ترقی اور روزگار پر خرچ کرنے کے بجائے “سود خور نظام” کی پرورش کی جا رہی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: سیاسی شخصیت کے خلاف پیش ہونے کے لیے 7 کروڑ روپے فیس کی پیشکش ہوئی، وفاقی وزیر قانون کا انکشاف
دفاعی اخراجات
دفاعی اخراجات 14.5 فیصد رکھے گئے ہیں۔۔۔ اگرچہ قومی سلامتی بے حد اہم ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ملک کا اندرونی معاشی و سماجی ڈھانچہ برباد ہو چکا ہو، تو کیا ہم خالی بندوقوں سے قومی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: سوالات کی بوچھاڑ ۔۔پردہ اٹھنے کا انتظار ۔۔ کنفیوژن کون ختم کرسکتا ہے۔۔ آخری پتہ کھیلا گیا تو گیم ختم ؟
گرنٹس اور سبسڈی
گرانٹس یعنی سرکاری اداروں کو دی جانے والی بلا سود امداد 11 فیصد ہے، جبکہ سبسڈی صرف 6.7 فیصد رکھی گئی ہے، حالانکہ مہنگائی کی شدت نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی ارکان کانگریس کی بانی سے ملاقات سے متعلق میرے سامنے کوئی بات نہیں ہوئی:عاطف خان
بنیادی خدمات کی خراب صورتحال
تعلیم اور صحت کی صورتحال تو انتہائی دردناک ہے۔۔۔ ہزاروں سکول بغیر اساتذہ، لاکھوں بچے سکول سے باہر، سرکاری ہسپتال دوائیوں سے خالی۔۔۔ مگر ان دو اہم شعبوں پر بجٹ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کو خشک راشن کی فراہمی بھی شروع
حکومتی ناکامی
ایک ایسا بجٹ جس میں آدھی سے زیادہ رقم سود میں چلی جائے، باقی دفاع، گرانٹس، بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی عیاشی پر خرچ ہو اور عوام کے لیے چند فیصد چھوڑ دیے جائیں، اسے “عوام دوست بجٹ” کہنا خود فریبی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت ریلوے کے ذیلی ادارے ریل کاپ کے تمام ملازمین سے استعفیٰ طلب
حکومت کی نااہلی
عوام کو اس وقت صرف مہنگائی ہی نہیں مار رہی بلکہ حکومت کی نااہلی، بدنیتی اور غلامانہ سوچ بھی اس بربادی کی بڑی وجہ ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ڈائمنڈ پینٹس نے 3 ارب روپے کی ماہانہ سیلز کر کے تاریخ رقم کر دی!
عملی جدوجہد کی ضرورت
یہ وقت محض تنقید کا نہیں، عملی جدوجہد کا ہے۔۔۔ ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے اور حقیقی ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی تباہی قدرتی نہیں انسانوں کی پیدا کردہ ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کو عملی طور پر روکنا ہوگا: عاصم افتخار
نوٹ
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
شمولیت کی دعوت
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ‘[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔