وفاقی بجٹ، زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ

تحریر کا آغاز
تحریر: خالد شہزاد فاروقی
سال 2025-26 کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو حسب روایت حکومت نے “اپنی کارکردگی کی قصیدہ گوئی” کے ساتھ “خوش فہمیوں” کے انبار لگا دیے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان اور بشریٰ بی بی سے وکلاء اور فیملی کی ملاقات سے متعلق فہرست جیل حکام کو بھجوادی گئی
بجٹ کی تفصیلات
وزراء نے دعویٰ کیا کہ یہ بجٹ عام آدمی کے لیے ہے، ملکی معیشت کو مستحکم کرے گا اور ترقی کی نئی راہیں کھولے گا مگر جب اس بجٹ کی تفصیلات پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ سب دعوے محض زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور “اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ” محسوس ہوتے ہیں۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں حامد خان کے دلائل خود کش حملہ تھا، ہم نے خود اپنے ساتھ زیادتی کی : صحافی عمران وسیم
معاشی چیلنجز
ایک ایسے وقت میں جب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بیروزگاری عام ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور تعلیم و صحت کی صورتحال ابتر ہے، وہاں یہ بجٹ محض “طاقتور طبقے کی خوشنودی” اور عالمی مالیاتی اداروں کی خوشی حاصل کرنے کی ایک کوشش لگتا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: واٹر میٹر لگائیں، بل آئیں گے تو سمجھ آئے گی کہ پانی ضائع نہیں کرنا، لاہور ہائی کورٹ
بجٹ کی تفصیلات کی حقیقت
کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 17.5 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے مگر جب ہم اس خطیر رقم کا تجزیہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ بجٹ کا بیشتر حصہ عوامی فلاح و بہبود کے بجائے قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اخراجات اور اشرافیہ کی مراعات پر مشتمل ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: بیرونی قرضوں کی وصولی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑا اضافہ
سودی چکر
سب سے بڑا جھٹکا یہ ہے کہ اس بجٹ کا 46.7 فیصد حصہ یعنی تقریباً آدھا، محض سود کی ادائیگیوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔۔۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری معاشی خودمختاری کو نگل رہا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: شام نے فلسطینی رہنما طلال ناجی کو بے دخل کر دیا، اماراتی اخبار
عوامی فلاح و بہبود کے لیے کم سرمایہ کاری
ملک کے بنیادی مسائل مثلاً تعلیم، صحت، زراعت، صنعتی ترقی اور روزگار پر خرچ کرنے کے بجائے “سود خور نظام” کی پرورش کی جا رہی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ایبٹ آباد کے باپ اور بیٹے نے ایک ہی دن شادی کر کے نئی مثال قائم کردی
دفاعی اخراجات
دفاعی اخراجات 14.5 فیصد رکھے گئے ہیں۔۔۔ اگرچہ قومی سلامتی بے حد اہم ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ملک کا اندرونی معاشی و سماجی ڈھانچہ برباد ہو چکا ہو، تو کیا ہم خالی بندوقوں سے قومی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: ایران اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر کے پیچھے بھی ’وردی‘ ہے: محسن نقوی
گرنٹس اور سبسڈی
گرانٹس یعنی سرکاری اداروں کو دی جانے والی بلا سود امداد 11 فیصد ہے، جبکہ سبسڈی صرف 6.7 فیصد رکھی گئی ہے، حالانکہ مہنگائی کی شدت نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ویڈیو: پی ٹی آئی کا کنگ آف کنفیوژن کون؟
بنیادی خدمات کی خراب صورتحال
تعلیم اور صحت کی صورتحال تو انتہائی دردناک ہے۔۔۔ ہزاروں سکول بغیر اساتذہ، لاکھوں بچے سکول سے باہر، سرکاری ہسپتال دوائیوں سے خالی۔۔۔ مگر ان دو اہم شعبوں پر بجٹ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: سپیکر کے پی اسمبلی کو کرپشن الزامات میں کلین چٹ دینے پر پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی میں اختلافات
حکومتی ناکامی
ایک ایسا بجٹ جس میں آدھی سے زیادہ رقم سود میں چلی جائے، باقی دفاع، گرانٹس، بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی عیاشی پر خرچ ہو اور عوام کے لیے چند فیصد چھوڑ دیے جائیں، اسے “عوام دوست بجٹ” کہنا خود فریبی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کو حملہ کرنے سے کس نے روکا؟ بڑا دعویٰ سامنے آ گیا
حکومت کی نااہلی
عوام کو اس وقت صرف مہنگائی ہی نہیں مار رہی بلکہ حکومت کی نااہلی، بدنیتی اور غلامانہ سوچ بھی اس بربادی کی بڑی وجہ ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن کی اہم عمارتوں کے باہر حفاظتی دیواریں کھڑی کردی گئیں، مگر کیوں؟ وجہ جانیے
عملی جدوجہد کی ضرورت
یہ وقت محض تنقید کا نہیں، عملی جدوجہد کا ہے۔۔۔ ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے اور حقیقی ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی حملے میں کتنے اسرائیلی ایف 35 لڑاکا طیارے تباہ ہوئے؟ مشیر انقلابی گارڈز بریگیڈیئر جنرل ابراہیم جباری کا بڑا دعویٰ
نوٹ
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
شمولیت کی دعوت
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ‘[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔