اسرائیل اور ایران کا بڑھتا تنازع: امریکی صدر ٹرمپ کے مؤقف میں مسلسل تبدیلی

امریکی صدر ٹرمپ کا متغیر مؤقف
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل اور ایران کے بڑھتے تنازع کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کے مؤقف میں مسلسل تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی الیکشن، کونسی ریاستیں ریپبلکنز نے ڈیموکریٹس سے چھینیں؟
حملوں پر ابتدائی ردعمل
نجی ٹی وی ڈان نیوز نے بی بی سی نیوز کے حوالے سے بتایا کہ جب جمعہ کو اسرائیل نے ایران پر حملے کیے تو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فوری طور پر اس کارروائی کو یکطرفہ قرار دیا اور ٹرمپ انتظامیہ نے اس سے دوری اختیار کی۔
یہ بھی پڑھیں: حملے کے تین گھنٹے بعد بھی دھماکے: روس کا پراسرار ‘اوریشنِک’ میزائل جو معما بن گیا ہے
صدر کی نئی حکمت عملی
لیکن اب صدر اس آپریشن کو مزید کھلے دل سے قبول کرنے لگے ہیں، وہ اس کارروائی کو ’بہترین‘ کے طور پر بیان کر رہے، اور ان حملوں میں استعمال ہونے والے ’امریکی عسکری سازوسامان‘ کی تعریف کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس سے یہ بھی سنا گیا ہے کہ امریکی اہلکار ایرانی میزائلوں کو روکنے میں مدد کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غریبوں کی عدالت۔۔۔
داخلی اور خارجی خطرات
داخلی طور پر یہ صدر ٹرمپ کو ایک خطرناک پوزیشن میں لا کھڑا کرتا ہے، ریپبلکن اور اس کی بنیاد میں اسرائیل کے لیے حمایت مضبوط ہے، لیکن غیر ملکی جنگوں میں امریکہ کی شمولیت کے بارے میں گہرے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نجی سکیم کے عازمین حج کی آگاہی کے لیے ہدایت نامہ جاری
ماضی کے وعدے اور موجودہ چیلنجز
ٹرمپ بہت عرصے سے نئی جنگوں کو شروع کرنے کی جاری جنگوں کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے آئے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں میں یوکرین میں لڑائی رکوا سکتے ہیں اور غزہ میں قید تمام یرغما لیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
جوہری مذاکرات کا امکان
حتیٰ کہ آج بھی انھوں نے اتوار کو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کو بحال کرنے کا خیال پیش کیا، لیکن تہران اس سے دستبردار ہو گیا ہے۔ سیاست کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا نام ہے اور صدر ٹرمپ ان اہم وعدوں میں سے کچھ کو پورا نہ کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔