عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے، صدر کے اختیار سے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی، آئینی بنچ

سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ میں ججز ٹرانسفر کیس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے، صدر کے اختیار سے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی، آئین میں لکھی ہر لائن کا مطلب اور مقصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟
کیس کی تفصیلات
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی۔ ججز ٹرانسفر کیس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے متفرق درخواست دائر کردی۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے پوچھا کہ آیا ایڈووکیٹ جنرل نے کوئی درخواست دائر کی ہے؟ امجد پرویز نے کہا کہ میں نے 1947 سے 1976 تک ججز ٹرانسفر کی مکمل تاریخ پیش کی ہے، ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے، 27 اے کا نوٹس ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شیخوپورہ: پیپر مل میں زہریلی گیس، دم گھٹنے سے 4 مزدور جاں بحق
اہم نکات
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے، آپ کو اٹارنی جنرل کے بعد دلائل دینے چاہئیں تھے، آپ کو نہیں پتہ 27 اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟ عدالت نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ رجسٹرار نے کمنٹس جمع کروائے ہیں تو آپ مرکزی فریق ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی، اور جج ہائیکورٹ میں تبادلہ پر آ گیا تو اس کی پہلی سنیارٹی کا کیا ہوگا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے وضاحت کی کہ دیکھنا ہوگا کیا صدر کو اپنا اختیار آزادانہ استعمال کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام سے متعلق کیس ؛26ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے دلچسپ ریمارکس
صدر کے اختیارات پر بحث
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا اس اصول پر جوڈیشل کونسل کی سفارش پر بھی صدر اپنے ذہن کو اپلائی کرے گا؟ عدالت نے تشویش کا اظہار کیا کہ جوڈیشل کونسل اگر کسی جج کی برطرفی کی سفارش کرے تو کیا صدر اپنا ذہن اپلائی کرے گا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے وضاحت کی کہ سیاسی حکومت کی ایڈوائس پر صدر کو ذہن اپلائی کرنا ہوگا۔
عدالتی مشاہدات
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اگر جج تبادلے پر رضا مندی نہ دے تو سارا عمل وہیں ختم ہو جائے گا، چاہے چیف جسٹس ہائیکورٹ انکار کردے، تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا۔ عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے، لیکن صدر کے اختیار سے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی۔
عدالت نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔