بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اخلاص و محبت کے رشتے کا گلا گھونٹ دیا جائے، اْسے خط کا جواب نہ دیا جائے، ہم اندھیرے میں ہی رہیں

مصنف کی معلومات

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 70

یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں، صدر یواین جنرل اسمبلی

خاندانی تعلقات

میرے دوسرے چچا ڈاکٹر ایم اے مالک خاں گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ان کے ایک دوسرے بھائی ایم اے حئی خاں ریٹائرڈ ڈپٹی چیف سیٹلمنٹ کمشنر تھے۔ ایک تیسرے بھائی ایم اے ھادی خاں بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاہور میں تعینات تھے۔ ایک اور کزن ایم اے وکیل خاں لاہور میں ڈی آئی جی پولیس تعینات تھے۔ ایک پھوپھی زاد بھائی ایم اے مقیت خاں ایڈووکیٹ تھے۔

دوسرے ایم اے قدیر خاں کنٹرولر سٹورز پاکستان ریلوے، تیسرے ایم اے ظاہر خاں ڈائریکٹر ٹیکنیکل سمال سکیل انڈسٹریز، چوتھے ایم اے صبور خاں پھوپھی زاد بھائی سپرنٹنڈنٹ کسٹمز، پانچویں ایم اے متین خاں پاکستان کے فارن آفس میں سیکشن آفیسر، چھٹے ایم اے طاہر خاں کسی نامی گرامی فارما سیوٹیکل کمپنی میں چیف ایگزیکٹو آفیسر اور ساتویں میجر کنور ایم اے اسلام خاں فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

خط و کتابت کی کہانی

میری شادی کے 13 سال اور روز رحمان کی شادی کے 9 سال بعد مجھے اس کا خط ملا۔ 1976ء میں مجھے جڑانوالہ میں روز رحمان کا ایک لیٹر ملا۔ اگرچہ میں نے اس کے شلانگ انڈیا کے پتہ پر جواب لکھ دیا تھا کہ میں اب شادی شدہ ہوں اور میری ایک بیٹی بھی ہے۔ روز خود بھی شادی شدہ ایک بیٹے کی ماں ہے، اس لئے ہمارا آئندہ کوئی مزید رابطہ رکھنا مناسب نہ ہوگا۔

بعدازاں، 7 برسوں بعد 1983ء میں مجھے روز رحمان کا ایک مزید خط ملا۔ اس خط کی مدد سے میرے اس گمان کی تصدیق ہوئی کہ میرا 1976ء کو لکھا ہوا خط اسے نہیں ملا تھا کیونکہ اس کی انڈیا شلانگ سے امریکہ روانگی ہو گئی تھی۔ روز کا یہ آخری اور واحد خط میرے ریکارڈ میں آج بھی موجود ہے جسے میں یہاں شائع کر رہا ہوں۔

روز کے بقیہ تمام ساٹھ ستر خطوط اور کچھ تصویریں میرے اٹیچی کیس کے ساتھ چوری ہو گئی تھیں جن دنوں جولائی اگست 1968ء میں کچھ ہفتوں کے لئے میرا قیام یوتھ موومنٹ کے سابق سیکرٹری جنرل ایم اے ایم صدیقی کے گھر انکم ٹیکس کالونی گلبرگ لاہور میں تھا۔ ایک رات کوئی نامعلوم چور آدھی رات کو گھر میں داخل ہو کر میرے کپڑے، اٹیچی کیس، ٹرانزسٹر ریڈیو اور میزبان محمد عبدالمعید صدیقی کے ایک ہینڈ بیگ کو لے کر چلا گیا۔ اس واقعہ کی پولیس رپورٹ بھی تھانے میں درج کروائی گئی تھی جس میں میں نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ مجھے روز رحمان کے میرے نام خطوط واپس مل جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پندرہ ماہ کے دوران 287 سے زائد پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہونے کا انکشاف

اخلاص اور قربانی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی

جیسا کہ روز رحمان کے (1983ء) کے خط کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے، وہ اب بھی چاہتی تھی کہ پاکستان کے ساتھ 1959ء میں قائم ہوا مقدس اخلاص پر مبنی روحانی رشتہ برقرار رہے۔ ہم صرف اتنا چاہتے تھے کہ ایک دوسرے کی ویلفیئر کا پتہ رہے، لیکن اپنی فیملی لائف کو محفوظ رکھنے کے لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اس رشتے کو ختم کر دیا جائے۔

اُسے اس خط کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا تاکہ 1968ء سے منقطع ہمارا رابطہ باقی رہے۔ ہم ایک دوسرے کے بارے میں اندھیرے میں ہی رہیں تاکہ اپنے اپنے دلی جذبات سے ناواقف رہیں۔ ایک دن حالات و واقعات کے تناظر میں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے قائم شدہ رشتوں کی استواری اور انہیں نبھانے کے لئے محبت و رومان کی قربانی دینا ضروری ہو جاتا ہے۔

نوٹ

یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...