ایرانی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو اقتدار کیلئے میدان میں کون ہوگا؟

تہران میں رجیم چینج کی باتیں
تہران (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایران پر امریکی حمایت سے جاری اسرائیلی حملوں کے تناظر میں تہران میں رجیم چینج کی باتیں بھی کی جارہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں زہریلے جانوروں کے کاٹنے سے انسانوں کی ہلاکتیں، لیکن آسٹریلیا نے انہی جانوروں کو جان بچانے کا ذریعہ کیسے بنایا؟
اقتدار کے لیے ممکنہ متبادل
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق اس صورتِ حال میں سب سے اہم سوال یہ سامنے آرہا ہے کہ اگر ایران میں موجودہ حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو اقتدار کے لیے میدان میں کون کون ہوگا؟ ایران میں اسرائیلی حملوں کے بعد معاشی بحران، ممکنہ عوامی احتجاج اور بڑھتے عالمی دباؤ کے پیش نظر ایک اہم سوال سامنے آ رہا ہے کہ اگر تہران میں رجیم چینج ہوتا ہے تو اقتدار کے لیے ممکنہ متبادل کون ہوسکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیر ستان میں لیفٹیننٹ کرنل اور جوانوں کی شہادت: وزیر اعلیٰ کا سوگوار خاندانوں سے اظہار تعزیت
امریکی اور مغربی کوششیں
امریکہ، اسرائیل اور یورپی طاقتیں کئی برسوں سے ایران میں تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس میں انہیں مختلف سیاسی، لسانی اور نسلی گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 11 سالہ بچے سے غلطی سے گولی چلنے پر ماں جاں بحق
شہزادہ رضا پہلوی کا کردار
اس منظر نامے میں سب سے نمایاں نام شہزادہ رضا پہلوی کا ہے۔ وہ ایران کے سابق شاہ محمد رضا پہلوی کے بیٹے ہیں۔ شہزادہ رضا پہلوی خود کو ایک سیکولر اور جمہوری ایران کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔ وہ امریکہ میں مقیم ہیں اور حالیہ برسوں میں اسرائیلی اور امریکی لابی کی جانب سے انہیں کھلی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ کئی یورپی تھنک ٹینکس اور ایرانی ڈائی اسپورا تنظیمیں بھی رضا پہلوی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی دارالحکومت میں پڑنے والے ’اولوں‘ کا سائز بڑا ہونے کی وجہ محکمہ موسمیات نے بے نقاب کردی
مجاہدین خلق (MEK) کا اثر
دوسرا بڑا دھڑا ہے مجاہدین خلق (MEK)، جس کی قیادت مریم رجوی کر رہی ہیں۔ ماضی میں عسکری کارروائیوں کے حوالے سے متنازع جانی جانے والی یہ تنظیم آج کل ایک منظم سیاسی و سفارتی مہم چلا رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں انہیں خاصی لابی سپورٹ حاصل ہے، تاہم ایران کے اندر عوامی مقبولیت محدود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 10 سال سے سندھ کو کچھ نہیں ملا، اس بار ازالے کی امید ہے: ناصر شاہ
کانسٹی ٹیوشنلسٹ پارٹی آف ایران
اسی صف میں شامل ایک اور اہم دھڑا ہے کانسٹی ٹیوشنلسٹ پارٹی آف ایران جو شاہی نظام کی آئینی بحالی کے حق میں سرگرم ہے۔ اس پارٹی کی قیادت روش زند کر رہے ہیں اور یہ زیادہ تر رضا پہلوی کے ہم خیال حلقوں میں شمار ہوتی ہے۔ تاہم ایران کے اندر اس گروہ کی سیاسی اثرپذیری محدود ہے، البتہ یورپی ایرانی حلقوں میں اس کے کچھ فعال مراکز موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں پولیس کا سرچ اینڈ کومبنگ آپریشن شروع، تحریک انصاف کے 300 کارکن گرفتار
ایرانی نسلی اقلیتوں کی حیثیت
ایران کی نسلی اقلیتوں میں کرد، بلوچ اور عرب گروہ بھی ہیں جن میں کردستان فری لائف پارٹی (PJAK) اور بلوچستان راجی زرمکاران (BRZ) بھی شامل ہیں، یہ گروہ اپنے اپنے علاقوں میں طاقتور مزاحمتی نیٹ ورکس رکھتے ہیں، اگرچہ ان گروہوں کو کھلم کھلا عالمی حمایت حاصل نہیں، مگر خفیہ طور پر یہ اسرائیلی اور مغربی تھنک ٹینکس کے ریڈار پر ہیں۔
نئی نسل کی ابھرتی تحریکیں
نئی نسل کی ابھرتی تحاریک زن، زندگی اور آزادی، ایران کے شہروں میں عوامی مزاحمت بن چکی ہیں اگرچہ یہ تینوں تحاریک قیادت سے محروم ہیں مگر ایرانی تارکین وطن سے لے کر یورپی دارالحکومتوں تک انہیں اخلاقی اور سفارتی حمایت مل رہی ہے۔