کشمیر، یورپی یونین اور بلاول کی سفارتکاری

بلاول بھٹو زرداری کا دورہ برسلز
تحریر: وقار ملک
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نو رکنی اعلیٰ سطحی پارلیمانی وفد کے ہمراہ برسلز پہنچے، جہاں یورپی یونین کے نمائندوں نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ بلاول بھٹو نے برسلز پریس کلب میں ایک ہاؤس فل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت و پاکستان کے درمیان کشمیر، دہشتگردی اور آبی مسائل کے حل کے لیے فوری و پائیدار مکالمے کی ضرورت پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں: تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ہی امن، ترقی اور انسانیت کا راستہ ہے: وزیر اعلیٰ مریم نواز
کشمیر کے تنازعے پر تشویش
انہوں نے خبردار کیا کہ جنگ بندی کی موجودہ خاموشی گمراہ کن ہے، اور اگر کسی بھی وقت کشیدگی دوبارہ بڑھی، تو یہ ایک ایسی سطح سے شروع ہوگی جہاں سے پچھلا تصادم ختم ہوا تھا۔ بلاول بھٹو نے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی کو پاکستان کے لیے “وجودی خطرہ” قرار دیا، اور واضح کیا کہ پانی کی بندش کو جنگ کا اقدام سمجھا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی ملاقات پر بلاول بھٹو زرداری کا بیان بھی آ گیا
بھارتی مذاکرات سے انکار
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے ہر سطح پر مذاکرات سے انکار کیا—چاہے وہ اقوامِ متحدہ ہو، امریکی ثالثی ہو، یا دو طرفہ مکالمہ۔ انہوں نے یورپی یونین اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ جنوبی ایشیا میں ممکنہ جوہری تصادم کو روکنے کے لیے فعال سفارتکاری اور ثالثی کا کردار ادا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: ہم نے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی کوئی درخواست نہیں کی، ایران نے ٹرمپ کے دعوے کی تردید کردی
کشمیریوں کی آواز بلند کرنا
جیسے جیسے یورپی یونین بھارت کے ساتھ اپنے معاشی و تزویراتی روابط کو مزید مضبوط بنا رہی ہے، برسلز میں مقیم کشمیریوں اور انسانی حقوق کے کارکنان ایک بار پھر کشمیر سینٹر ای یو جیسے مؤثر ادارے کے دوبارہ قیام کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں تاکہ یورپ میں مسئلہ کشمیر کو مؤثر انداز میں اجاگر کیا جا سکے۔ جیسا کہ پاکستان کشمیریوں کا ایک بڑا وکیل اور موثر لابنگ کر سکتا ہے اور جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل بننے کے بعد ایک بہادر سپہ سالار بن کر ابھرے اور کشمیریوں کی توقعات بڑھیں ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اپنے وفود باہر کی دنیا میں بھیجے تاکہ مسلہ کشمیر سمیت دیگر اہم امور پر گفتگو ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: ویرات کوہلی اور انوشکا شرما کے بھارت چھوڑنے کی اصل وجہ سامنے آگئی
پالیسی نشست کا انعقاد
اسی تناظر میں برسلز میں منعقدہ ایک پالیسی نشست کے دوران جرمن سیاست دان اور سابق یورپی مشیر فرینک شوالبا ہوتھ نے کشمیر سینٹر کی تاریخی خدمات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ ماضی میں یورپی سطح پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مؤثر لابنگ کرتا رہا ہے اور متعدد فیکٹ فائنڈنگ مشنز کا حصہ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کنول آفتاب کی مبینہ ویڈیو لیک ہو گئی؟ سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا
یورپی یونین کی بھارت نواز پالیسی پر تنقید
انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ یورپی یونین کی بھارت نواز پالیسی، خاص طور پر ٹرمپ کے دورِ صدارت کے بعد، ایک نئے جغرافیائی سیاسی توازن کو جنم دے رہی ہے، جہاں انسانی حقوق کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔ "کیا کشمیر بھی مغربی صحارا جیسی خاموشی کا شکار ہو جائے گا؟" انہوں نے سوال اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں: سابق صوبائی وزیر کرپشن کے الزام میں اینٹی کرپشن آفس طلب
کشمیر سینٹر ای یو کی اہمیت
یاد رہے کہ کشمیر سینٹر ای یو، جس کی قیادت برسٹر عبدالمجید ترمبو نے 2003 سے 2014 تک کی، نے ایک دہائی تک یورپی اداروں میں کشمیر کے حق خودارادیت کے لیے مختلف سیمینارز، رپورٹوں، اور مہمات کے ذریعے مضبوط مؤقف اختیار کیا۔ تاہم گزشتہ برسوں میں اس کی غیر موجودگی یورپی سطح پر ایک خاموشی کو جنم دے چکی ہے، جس سے بھارت کو منفی پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا جبکہ پاکستان کی طرف سے ای یو پارلیمنٹ میں کسی بھی این جی او کی طرف سے حوصلہ افزاء کوششیں نہ کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ سرا برادری کی شناخت کو با اختیار بنانے کے لیے کراچی کے فریئر ہال میں دوسرے ٹرانسجینڈر فیسٹیول کا انعقاد
یورپی یونین میں انسانی حقوق کا دفاع
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، جو برسلز کے اس اجلاس میں مہمان خصوصی تھے، کو ممبران پارلیمنٹ اور یورپی صحافیوں نے برسٹر مجید ترمبو کی قابلیت سے آگاہ کیا اور سوالات بھی کیے۔ اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین اور دیگر انٹرنیشنل اداروں میں سخت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ای یو کا کردار صرف معاشی شراکت داری تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے انسانی حقوق اور علاقائی امن کے لیے بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی کے لیے جاسوسی کے الزام میں ایران میں 22 افراد گرفتار
مذاکرات کی اہمیت
انہوں نے کہا: "ہمیں یورپی یونین اور بھارت کے تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ہماری خواہش ہے کہ آپ بھارت کو یہ باور کرائیں کہ موجودہ رویہ نہ صرف کشمیریوں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: علی امین کو مبارک ہو، اس نے پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی کا سینیٹر بھی بنوا دیا، علی امین نے پی ڈی ایم کو پوری طرح سپورٹ کیا، ایمل ولی خان
پرامن ترقی کی ضرورت
بلاول نے زور دیا کہ معاشی ترقی اور علاقائی روابط صرف امن کے ماحول میں ہی فروغ پا سکتے ہیں، اور اگر کشمیر جیسے حساس تنازعے کو نظر انداز کیا گیا تو یورپ کے لیے بھی علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ہرنائی میں جام شہادت نوش کرنیوالے میجر محمد حسیب اور حوالدار نور احمد مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ آبائی علاقوں میں سپرد خاک
انسانی حقوق کے دفاع میں اتحاد
یورپی انسانی حقوق کے حلقے بھی اس خاموشی پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک سابق یورپی سفارتکار کے مطابق، "کشمیر سینٹر ای یو جیسے پلیٹ فارم مظلوم کشمیریوں کی آواز تھے۔ آج جب بھارت عالمی سطح پر اپنی شبیہ بہتر بنانے میں لگا ہوا ہے، تو ان اداروں کی غیر فعالیت ایک تشویشناک خلا پیدا کر رہی ہے۔"
مستقبل کے مواقع
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر برسلز میں ایک نیا یا ازسرنو متحرک ادارہ قائم ہو جائے، تو وہ یورپی پالیسی سازوں اور عوامی رائے عامہ کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے—اور یورپی یونین کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ متوازن انداز میں استوار کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔ بعدازاں سنیٹر شیری رحمان نے برسٹر مجید ترمبو کی خدمات کو سراہا اور ان کی خدمات حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔