1965ء کی جنگ پاکستان نے مشکل حالات میں کامیابی سے لڑی، امریکا نے اعلان کیا پاکستان امریکا سے حاصل کردہ اسلحہ انڈیا کے خلاف استعمال نہیں کرے گا

خط کا آغاز
مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:73
کچھ عرصہ بعد 1976ء میں ہی جڑانوالہ کے پتہ پر مجھے بھی روز رحمان کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں اس نے گلہ کیا تھا کہ میری بھتیجی نصرت نے اس کے خط کا جواب نہ دیا ہے جو اس نے نصرت کے خط کے جواب میں لکھا تھا لیکن نصرت کی جانب سے اسے دوبارہ کوئی خط موصول نہ ہوا ہے۔ اس خط میں اس نے مجھ سے بھی وہی سوالات دوہرائے تھے کہ آپ کہاں ہیں، کیا کر رہے ہیں، کتنے بچے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی اہم شخصیت مستعفی
جواب کا متن
اس خط کے جواب میں میں نے اسے اپنی دلی کیفیت بتانے کی بجائے لکھ بھیجا کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں خوش باش ہوں۔ اللہ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا ہے اور ایک بہت اچھی بیوی عطا کی ہے اور اس خواہش کا بھی اظہار کر دیا تھا کہ اب ہمارا مزید کسی قسم کا بھی رابطہ رکھنا مناسب نہ ہوگا۔ لیکن بعد کے واقعات سے اندازہ ہوا کہ روز کو میرا یہ خط نہ ملا تھا۔ میرا خط شلانگ پہنچنے سے پہلے ہی وہ واپس امریکہ جا چکی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا زائدالمیعاد شناختی کارڈز پر جاری تمام سمز فوری بلاک کرنے کا فیصلہ
رابطے کا خاتمہ
روز رحمان ایک وقت میں میری قلمی دوست تھی، بعدازاں اس سے محبت بھی ہوئی جبکہ کبھی ملاقات نہ ہوئی تھی اور بالآخر اس سے ہمیشہ کے لئے رابطے بھی ختم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو ایسے ہی منظور تھا اور شائد اسی میں 2 خاندانوں کی بہتری پنہاں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف فوری آپریشن کا فیصلہ
نوجوانوں کے لیے مشورہ
نوجوانوں کے لئے میرا پیغام ہے کہ وہ پہلے خود کو بہترین تعلیم و ہنر سے آراستہ کریں۔ اعلیٰ مقاصد کے لئے کام کرنے کو اپنا نصب العین بنائیں۔ شادی کے مسئلے کو کبھی وجہ نزاع اور محاذ آرائی کا باعث نہ بنائیں۔ سماج کی مخالفت اب دم توڑ رہی ہے، اس لئے والدین سے دوستی و محبت اور ان سے سب کچھ شیئر کرنے کا رشتہ بنائیں۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دھماکا کرنیوالے بی ایل اے دہشتگرد کی تفصیلات سامنے آگئیں
تجربہ کی روشنی میں
میں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے تک کہیں تعلق نہ بنائیں، اور جب پورے سوچ بچار کے بعد کہیں کوئی ذہنی یا جذباتی تعلق بن جائے تو اپنے والدین کے علم میں لائیں، جہاں آپ انگلی رکھیں گے، وہیں آپ کی شادی کر دیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب شادی کا وقت آیا تو دونوں بیٹا بیٹی کی کوئی پسند نہ تھی، دونوں نے ہم پر چھوڑ دیا کہ آپ ہمارے لئے جو رشتہ پسند کریں گے ہم وہیں شادی کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: مرد کے دوسرے، تیسرے یا چوتھے نکاح پر شریعت میں کوئی قدغن نہیں،اسلامی نظریاتی کونسل
پاک بھارت جنگ 1965ء
1965ء کی جنگ پاکستان نے بڑے مشکل حالات میں کامیابی سے لڑی جبکہ عالمی سیاسی حالات ہمارے حق میں نہیں تھے۔ جنگ شروع ہوتے ہی امریکا نے اعلان کیا کہ پاکستان امریکا سے حاصل کردہ اسلحہ انڈیا کیخلاف استعمال نہیں کرے گا۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے دفاعی معاہدے ہونے کی وجہ سے روس کی ہمدردیاں بھی ہندوستان کے ساتھ تھیں۔ کشمیری مجاہدین پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ برسرپیکار تھے۔ اگست 1965ء کے دوران پاکستانی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں بڑی کامیابیاں مل رہی تھیں اور وہ دریائے توی کو پار کرکے چھب جوڑیاں فتح کرتے ہوئے اکھنور سری نگر کے قریب پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ ہندوستان نے کشمیر میں پاکستانی افواج کی کارروائیوں کا زور توڑنے کے لئے 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی رات راجستھان، قصور، لاہور، سیالکوٹ سیکٹروں میں بغیر اعلانِ جنگ کئے پاکستان کیخلاف محاذ کھول دیئے۔ پاکستان کو شائبہ تک بھی نہ تھا کہ ہندوستان انٹرنیشنل بارڈر کراس کرکے پاکستان کیخلاف بڑی جنگ کا آغاز کرے گا، کیونکہ اُس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو وزارتِ خارجہ کی طرف سے صدر ایوب خان کو یقین دلا چکے تھے کہ اگر پاکستان کشمیر میں پیش قدمی کرے گا تو انڈیا انٹرنیشنل بارڈر کو کراس کر کے پاکستان پر حملہ آور نہیں ہوگا۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) اداریے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔