اسرائیل، ایران جنگ کے حوالے سے چند اہم فیکٹ چیک، پاکستان نے اپنی فضائی، زمینی یا بحری حدود استعمال کرنے کی اجازت دی نہ دے گا

اسرائیل اور ایران جنگ: اہم حقائق
لاہور (طیبہ بخاری سے) اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کے حوالے سے چند اہم حقائق اور فیکٹ چیک رپورٹ کیے گئے ہیں۔ پاکستان کا اصولی موقف بھی سامنے آ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سانپ نے جاپان کی مشہور بلیٹ ٹرین سروس کا نظام درہم برہم کردیا
پاکستان کا موقف
پاکستان نے امریکہ یا اسرائیل کو ایران کے خلاف کسی بھی حملے کے لیے اپنی فضائی حدود، زمینی یا بحری جگہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: Indian Female Wrestler Defeats BJP in State Elections
امریکی حملے کی مذمت
تفصیلات کے مطابق، پاکستان نے 21/22 جون کی رات ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے امریکی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزارت خارجہ نے اس حوالے سے واضح بیان بھی جاری کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مرغی کے گوشت کی قیمت میں بڑا اضافہ
ایرانی دفاع کی حمایت
پاکستان نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر ایران پر اسرائیلی حملوں کی بارہا اور دلیری کے ساتھ مذمت کی ہے، اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایران کی مکمل سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں پروموشن و پوسٹنگ اضلاع کے تعلیمی نتائج سے مشروط کر دی گئی
ملک کی خود مختاری
پاکستان کسی دوسرے کی جنگ، کسی بلاک کی سیاست، اور دوسرے ملک کے فوجی تنازعات میں حصہ نہیں لے گا اور نہ ہی اس کا حصہ بنے گا۔ پاکستان کا پہلے دن سے ایک اصولی موقف ہے کہ ایران کو اپنے دفاع کے تمام حقوق حاصل ہیں، اور پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا نئے ٹیرف پر مذاکرات کیلئے وفد امریکا بھیجنے کا فیصلہ
بین الاقوامی روابط کی اہمیت
پاکستان نے ہمیشہ تمام متعلقہ فریقین اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ فعال روابط قائم کیے ہیں اور کرتا رہے گا تاکہ جلد از جلد جارحیت کا خاتمہ ممکن ہو سکے، اور باہمی بات چیت اور ڈائیلاگ کے ذریعے امن کو موقع دیا جا سکے۔ ایسا امن جو پائیدار، باعزت اور باہمی طور پر قابل قبول شرائط پر مبنی ہو۔ اس کا مقصد کشیدگی میں اضافے اور اس کے نتیجے میں خطے میں عدم استحکام جیسے سنگین خطرات سے بچنا ہے۔
بات چیت کا ذریعہ امن
پاکستان کا ماننا ہے کہ ہر تنازعہ کا اختتام بالآخر بات چیت اور روابط کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے، اور اس کے لیے یہ تمام فریقین کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ تاخیر کی بجائے بروقت کوئی پُرامن حل تلاش کریں۔