میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نمائندے، چاہے کسی بھی جماعت سے منتخب ہوں، سوچ اور مفادات سب کے ایک جیسے ہیں، تبادلے کا دکھ تھا مگر چلے جانا ہی بہتر تھا۔

مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 208
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی نے کہا کبھی ڈیل نہیں کریں گے: بیرسٹر علی ظفر
منصوبے کی تفصیلات
اس منصوبے کا پراجیکٹ لیڈر متعلقہ سب انجینئر سے دوسری قسط کے اجراء کی recommendations کے ساتھ میرے پاس آیا اور رقم جاری کرنے کو کہا۔ مجھے اسی گاؤں کے ایک معتبر نے آ کر بتایا تھا؛ ”سر! اسی منصوبے کے لئے ایم این اے نے بھی رقم دی تھی۔ وہی منصوبہ دکھاکر پراجیکٹ لیڈر باقی کی رقم ہضم کرنے کے چکر میں ہے۔“
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کا اہم اجلاس شروع، وزیر خزانہ بجٹ 26-2025 پیش کر رہے ہیں
معائنہ کا عمل
پراجیکٹ لیڈر کی درخواست موصول ہوئی تو میں متعلقہ سکیم کے معائنہ کا دن مقرر کرکے وہاں پہنچا۔ پراجیکٹ لیڈر اسلم کائرہ صاحب کا بڑا ووٹر اور سپورٹر تھا۔ سب انجینئر طاہر (طاہر سرگودھا کا رہنے والا نوجوان تھا۔ یہ اس کی پہلی پوسٹنگ تھی۔ پیسے سے اسے بہت پیار تھا۔) بھی موجود تھا۔ یہ ڈرینج کی سکیم تھی۔ میں نے طاہر سے پوچھا؛ ”کیا اس منصوبے کے پیسے 2 نمائندوں نے دئیے تھے؟“ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں پولیو کے مزید 2 کیسز رپورٹ، رواں سال تعداد 12 ہوگئی
اسٹیمیٹ کی جانچ
میں نے پوچھا؛ ”دونوں سکیمز کے اسٹیمیٹ (estimate) دکھاؤ اور مجھے بتاؤ ایم این اے گرانٹ میں کون سا حصہ بنا اور ایم پی اے گرانٹ سے کون سا۔“ اس نے مجھے اسٹیمیٹ یہ کہہ کر نہ دکھایا کہ وہ ساتھ لانا بھول گیا تھا۔ میں نے اپنی فائل سے اسے دونوں اسٹیمیٹ دکھائے اور کہا اب بتاؤ کون سے حصہ کس کی گرانٹ سے تعمیر ہوا۔“ اس نے کہا؛ ”سر! یہ منصوبہ دونوں گرانٹوں سے مکمل ہوا ہے۔“
یہ بھی پڑھیں: رانا ثناء اللہ نے وی پی این استعمال کرنے والوں کو خوشخبری سنا دی
میدان میں حقائق
اگر میرا حافظہ درست طور پر میرا ساتھ دے رہا ہے تو ڈیڑھ لاکھ کی رقم سے تقریباً11500/1600 لمبا ڈرینج نالہ بنا نا تھا لیکن موقع کی پیمائش غالباً ہزار گیارہ سو فٹ تھی۔ میں طاہر سے پوچھا ”کیا اتنا ہی لمبا نالہ تعمیر ہونا تھا؟ وہ بولا؛ ”جی۔“ میں نے کہا؛ ”کیا یہ ایسٹیمیٹ کے مطابق ہے۔“ وہ تو خاموش ہی رہا البتہ پراجیکٹ لیڈر بولا؛ ”جی جی مطابق ہے۔“
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے افغان فورسز کی جارحیت ناکام بنا دی،پاک فوج کی موثر کارروائی
کاروائی کا فیصلہ
اسے میں نے کہا؛ ”آپ کو بولنے کی ضرورت نہیں۔“ اس نے برا منایا ہو گا۔ طاہر میرے تیوڑ دیکھ کر بولا؛ ”سر! میں دوبارہ چیک کر کے آپ کو رپورٹ کرتا ہوں۔“ میں واپس دفتر آیا اور ایک لمبی چوڑی رپورٹ لکھی اور سب انجینئر کے منت ترلے کو نظر انداز کرتے اس کے خلاف کاروائی کے لئے اے ڈی ایل جی کو بھیج دی۔ اگلے روز ایم پی اے آئے اور مجھے اس منصوبے کی باقی رقم جاری کرنے کو کہا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں موسم سرما کی تعطیلات کتنی اور کب سے ہونگی؟ جانیے
ایم پی اے کے مطالبات
میں نے انہیں ساری صورت حال سے آ گاہ کیا وہ خوش ہوئے اور واپس چلے گئے۔ اگلے روز دوبارہ آگئے۔ پراجیکٹ لیڈر بھی ہمراہ تھا۔ کہنے لگے؛ ”شہزاد صاحب! ان کی کوئی باقی رقم ہے، منصوبہ مکمل ہے رقم جاری کر دیں۔ میں نے انہیں یاد دلایا؛ ”سر! یہ وہی منصوبہ ہے جس کے بارے کل آپ کو بریف کیا تھا۔“
یہ بھی پڑھیں: چین اور کرغزستان کے درمیان تعاون میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، چینی صدر
حیرت انگیز رویہ
وہ میری بات سنی ان سنی کرکے بولے؛ ”میں جیسے کہہ رہاہوں، کریں اور انہیں باقی رقم جاری کر یں۔ یہ میرے پیسے ہیں۔“ میرے لئے یہ حیران کن رویہ تھا۔ جماعت اسلامی کا ایم پی اے بھی غلط رقم کے اجرا ء کے لئے زور دے رہا تھا۔ میں نے ہمت کرکے کہا؛ ”سر! پیسے سرکار کے ہیں آپ صرف sponsor ہیں۔ اگر آپ پیسے دلوانا چاہتے ہیں تو اپنے لیٹر ہیڈ پر لکھ دیں۔“
یہ بھی پڑھیں: اغوا کے بعد بیچا گیا 6 ماہ کا بچہ بازیاب، ملزم گرفتار
انتقال کے احکامات
وہ بولے؛ ”میں دفتر جا کر بجھوا دیتا ہوں۔“ انہوں نے لیٹر تو نہیں بجھوایا البتہ دو چار دن بعد میرے ٹرانسفر آڈرز ضرور آ گئے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ملک میں نمائندے خواہ کسی جماعت سے بھی منتخب ہوں سوچ اور مفادات سبھی کے ایک جیسے ہی ہیں۔
نتیجہ
میری پہلی پوسٹنگ کو 3 سال گزر چکے تھے۔ میں نے اسلم کائرہ صاحب والے منصوبہ کی رپورٹ اپنے ضلعی دفتر اور اس کی کاپیاں جہاں ضروری تھیں بجھوا دیں۔ اس منصوبہ کی باقی رقم کوشش کے باوجود بھی جاری نہ ہو سکی تھی۔ مجھے یہاں سے تبادلے کا دکھ تھا مگر بعد میں احساس ہوا اُس وقت میرے لئے وہاں سے چلے جانا ہی مناسب اور بہتر تھا۔ ہر کام میں اللہ کی معیت ہوتی ہے۔ شاید ہم سمجھتے نہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔