حسن ابدال: ایک چھوٹا مگر بین الاقوامی اہمیت کا حامل قصبہ

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 170
حسن ابدال۔ واہے گرو
گورو کے درشن دیکھ دیکھ جیواں
گورو کے چرن دھوئے دھوئے پیواں
یہ بھی پڑھیں: برطانوی حکام نے پاکستان کے شعبہ ہوابازی کے حفاظتی انتظامات کو تسلی بخش قرار دیدیا
حسن ابدال کی اہمیت
واہ کینٹ اسٹیشن سے اگلابڑا اسٹیشن حسن ابدال ہے جو آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹا مگر بین الاقوامی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل قصبہ ہے۔ یہاں سکھوں کا ایک بڑا ہی متبرک مقام گورودوارہ پنجہ صاحب ہے جہاں سارا سال دنیا بھر سے سکھ یاتریوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ان کی سہولت کے لیے حال ہی میں محکمہ ریلوے نے یہاں ایک بہت ہی خوبصورت اور بین الاقوامی معیار کا جدید ترین ریلوے اسٹیشن بنایا ہے جس کا ڈیزائن سکھوں کی مذہبی عمارتوں سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے قریب ہی مغل دور کا واہ گارڈن بھی ہے جس کی صحیح دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کم ہی لوگ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ میں نے اس کا ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری سمجھا کہ یہاں میں مغل دور کے ایک کھنڈر میں کھڑا ہوا تھا کہ یکدم اوپر چھت سے بڑے سانپوں کا ایک جوڑا میرے کاندھے پر آن گرا تھا اور میں نے بڑی مشکل سے بھاگ کر اپنی جان بچائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نائب وزیراعظم اسحاق ڈار رواں ماہ امریکا کا دورہ کریں گے
اٹک جنکشن کا تعارف
حسن ابدال سے چلنے کے بعد اگلا بڑا اسٹیشن اٹک جنکشن آتا ہے۔ یہ پنجاب کا آخری اور بہت بڑا ضلع ہے۔ اس کے بعد خیبر پختون خوا کا صوبہ شروع ہو جاتا ہے۔
کوٹری کے بعد یہ دوسرا اسٹیشن ہے جہاں ایک بار پھر ایم ایل 1 اور ایم ایل 2 مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔ یعنی متبادل مرکزی لائن کوٹری سندھ سے نکل کر ایک مختلف راستہ اختیار کرکے اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب سے ہوتی ہوئی شمالی علاقوں کو نکل جاتی ہے اور پھر اٹک کے مقام پر کراچی۔ پشاور والی مرکزی لائن یعنی ایم ایل 1 میں ضم ہو جاتی ہے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد یہ ضروری ہو گیا تھا کہ کراچی کو شمال سے ملانے کے لیے اس متبادل لائن کو فعال کیا جائے تاکہ اگر خدا نخواستہ مرکزی لائن ایم ایل 1 کسی وجہ سے ناکارہ ہو جائے تو متبادل راستے سے دارالحکومت اسلام آباد کا رابطہ ملک سے بنا رہے۔
یہ بھی پڑھیں: میں نے طیارہ خریدا ، وہ ٹوٹ گیا: بھارتیوں کو شرمندہ کرنے والا وائرل چینی گانا دراصل کس نے گایا؟ گلوکار کے بارے میں دلچسپ تفصیلات سامنے آ گئیں
اٹک کی تاریخی پس منظر
ابتدائی طور پر یہاں قریب ہی دریائے سندھ کے کنارے اٹک خورد کا قلعہ تھا اور یہاں تک انگریز ریل کی پتری کو بھی لے آئے تھے، پھر انہوں نے 1908ء میں یہاں قریب ہی ایک بڑی فوجی چھاؤنی بنائی اور یہاں ایک شہر بسا کر اس کا نام کیمبل پور رکھ دیا۔ اگلے 70 برس تک یہ اسی نام سے جانا اور پکارا جاتا رہا پھر 1978ء میں مقامی لوگوں کے مطالبے پر اس کا صدیوں پرانا نام اٹک بحال کر دیا گیا۔
اٹک کی موجودہ صورتحال
اٹک میں ضلع کی سطح کے تمام دفاتر، عدالتیں اور اسپتال وغیرہ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے اور مختلف یونیورسٹیوں کے کیمپس بھی ہیں۔ یہاں سے کوئی پندرہ کلومیٹر دور پاکستان کا ایک بڑا اور مشہور کامرہ ایئر بیس اور ایئروناٹیکل فیکٹری ہے۔ جہاں پاکستان ائرفورس اپنے جنگی جہاز تیار کرتا ہے اور یہیں ان کی اوور ہالنگ اور مرمت وغیرہ بھی ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔