منہ زور پانی میں ڈوبتی انسانیت اور اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ریاست

خواجہ سعد رفیق کا مایوس کن پیغام
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق کی جانب سے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ "ایکس" پر کی گئی ٹویٹ نے میرے دل و دماغ کو الجھایا۔ یہ ٹویٹ میں نے کئی بار پڑھا۔ خواجہ صاحب کے الفاظ "نشتر" بن کر دل میں کچوکے لگانے لگے۔
یہ بھی پڑھیں: احمد پور شرقیہ؛ وین میں گیس لیکج کے باعث آگ بھڑک اٹھی، ایک طالبہ جاں بحق، 9 زخمی
دریائے سوات کا المیہ
اپنے ٹویٹ میں ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ "دریائے سوات میں طوفانی لہروں میں گھرے بے یارو مددگار اٹھارہ افراد کا یکے بعد دیگرے بہہ جانا قیامت خیز المیہ ہے۔" ان کی اذیت اور بے بسی کی داستان دل کو چُھو لیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول نے جلسے میں جو بات کی وہ جوش خطابت میں کی : رانا ثنااللہ
انسانیت کی بے حرمتی
خواجہ سعد رفیق نے تشویش کا اظہار کیا کہ المناک سانحات کا تسلسل بڑھتا جا رہا ہے لیکن کس کو فرق پڑتا ہے؟ ہمارے وطن میں انسانی زندگی کی بے وقعتی ہولناک واقعات کا باعث بن چکی ہے۔ حکمران طبقہ صرف مذمت کرتا ہے لیکن حقیقی مسائل کا حل تلاش نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی طیارہ کیوں گرا؟ماہرین نے مختلف خدشات کا اظہار کر دیا
اجتماعی غفلت اور بے حسی
خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ "ووٹ کے ذریعے تبدیلی سے عوامی اعتبار اٹھ چکا ہے۔" عوام کو انصاف اور انسانی زندگی کے تحفظ کے لئے کوئی پائیدار حل نہیں مل رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام کی بے چینی بڑھ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اپنی مخالف “آنٹ فینی” کو قتل کروانے والی “دی فیٹ لیڈی” گرفتار
سوالات میں دفن مستقبل
دریائے سوات کی بے رحم موجوں میں ڈوبتے اٹھارہ خواب اور زندگیاں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکیں۔ یہ منظر صرف ایک سانحے کا نہیں بلکہ ایک سوال کا ہے: ہم کب جاگیں گے؟
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا اسمبلی میں وزراء کی مراعات میں اضافے سے متعلق بل پیش
ماضی کی رنجیدہ کہانیاں
ہمارے ہاں ریاستی ڈھانچہ ہر سانحے کے بعد ایک رسمی تعزیت دیتا ہے، پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ انسانی جان کی حرمت کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی۔ آج انسان پانی میں ڈوب رہے ہیں اور حکمران صرف اظہارِ افسوس کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: برازیل میں G20 ممالک کا اجلاس، چین نے ترقی پذیر ممالک کے حق میں آواز بلند کر دی
ریاست کی ذمہ داریاں
اگر آج سوات کے دریا میں لوگ مر رہے ہیں تو کل کہیں اور یہ سانحہ دہرایا جا سکتا ہے۔ انسانی جان کے تحفظ کے بغیر کوئی ریاست حقیقت میں ریاست نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چار شادیوں کے حق میں نہیں ہوں مگر اس میں زیادہ قصور عورتوں کا ہے: یاسر حسین
امید کا چراغ
لیکن کچھ لوگ ہیں جو یہ سوالات اٹھاتے ہیں اور اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ ہمیں ہر سانحے پر صرف آنکھ نم نہیں کرنی بلکہ زبان بھی کھولنی ہوگی۔ یہ قوم مزید جنازے نہیں اٹھا سکتی۔
نتیجہ
اگر لاوا پھٹ پڑا تو تاریخ لکھی جائے گی، مگر شاید لکھنے والے ہاتھ باقی نہ رہیں۔ ہمیں جاگنا ہوگا، سوچنا ہوگا، بولنا ہوگا، اور بہتری کے لئے اقدام کرنا ہوگا۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس '[email protected]' یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔