ٹیکس ادا کیے بغیر فوائد سمیٹنے والوں کی بھرمار، ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح مزید کم
ٹیکس سال 2024 میں انکم ٹیکس کی صورتحال
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) معروف صحافی و تجزیہ نگار انصار عباسی نے بتایا ہے کہ ٹیکس سال 2024 کے دوران انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں کی تعداد میں اگرچہ 76 فیصد اضافہ ہوا لیکن ٹیکس ریونیو میں حقیقی اضافہ صرف 30 فیصد تک محدود رہا۔
یہ بھی پڑھیں: اگر حکومت کے پاس پی ٹی آئی پر پابندی کا قانونی جواز ہے تو سپریم کورٹ میں کیس دائر کر دے: سینیٹر ساجد میر
فائلرز کی تعداد میں اضافہ
نجی ٹی وی جیو نیوز نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے حوالے سے بتایا کہ اس فرق کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں افراد نے صرف فائلر کا درجہ حاصل کرنے کیلئے ریٹرن جمع کرائے تاکہ جائیداد اور گاڑیوں کی خرید و فروخت پر فائلر کو حاصل کم شرحِ ٹیکس سے فائدہ اٹھا سکیں لیکن انہوں نے کوئی خاطر خواہ ٹیکس ادا نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: عمرایوب کی نااہلی کیلئے ریفرنس الیکشن کمیشن میں سماعت کیلئے مقرر
ایف بی آر کی رپورٹ
ایف بی آر کے ’براڈننگ آف ٹیکس بیس (BTB)‘ کی کارکردگی کا جائزہ لینے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں ٹیکس فائلرز کی تعداد 29 لاکھ 59 ہزار تھی جو 2024 میں بڑھ کر 52 لاکھ 15 ہزار ہوگئی لیکن آمدنی میں اس اضافے کے تناسب سے محصولات جمع نہیں ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کی سکول پک اینڈ ڈراپ: عدالت کا اہم فیصلہ
نئے فائلرز کی صورتحال
رپورٹ کے مطابق نئے فائلرز محض رسمی فوائد حاصل کرنے کیلئے سسٹم کا حصہ بن رہے ہیں، نہ کہ اپنے ٹیکس کی اصل ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کو پھر قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، علیمہ خان کا بیان
ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب
رپورٹ میں یہ تشویشناک پہلو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 20167 میں 10.6 فیصد سے کم ہو کر 2023-24 میں صرف 8.7 فیصد رہ گیا ہے حالانکہ ایف بی آر کے پاس وسیع تھرڈ پارٹی ڈیٹا دستیاب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی صحافی عامر نوید ملک کے انتقال پر تعزیتی ریفرنس کا انعقاد
معلومات کا فقدان
آئی آر آئی ایس (IRIS) کا حصہ سمجھے جانے والے ’معلومات پورٹل‘ میں صنعتی بجلی اور گیس کنکشنز رکھنے والے افراد، مہنگی گاڑیوں کے مالکان اور کثرت سے غیر ملکی سفر کرنے والوں کا ریکارڈ موجود ہے لیکن ان میں سے کئی افراد یا تو ’’NIL‘‘ ریٹرن جمع کراتے ہیں یا سرے سے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کیلئے سخت شرائط
خامیوں کی نشاندہی
رپورٹ میں ان خامیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کی نشاندہی ایک خصوصی آڈٹ رپورٹ میں 20167 میں کی گئی تھی لیکن اب تک ان کا سدباب نہیں کیا گیا۔ یہ خامیاں درج ذیل ہیں: سیلز ٹیکس قانون کے تحت صنعتی بجلی کنکشن رکھنے والے 1807 افراد کی رجسٹریشن نہیں کی گئی؛ صنعتی بجلی کے 702 کنکشن مالکان اور 992 گیس کنکشن ہولڈرز سے ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرایا گیا؛ 1500 سی سی سے زائد انجن کی گاڑیاں رکھنے والے 744 افراد نے رجسٹریشن کرائی اور نہ ریٹرن فائل کیا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف حکومتی اخراجات میں کمی سے مشروط کردیا
ایف بی آر کی کوششیں
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ اس کا BTB ونگ مستقل بنیادوں پر نئی پالیسیوں اور سخت اقدامات سے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے لیکن آڈٹ رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے کوئی قابلِ تصدیق پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ تریموں بیراج پہنچ گئیں، سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لیا، جدید ٹیکنالوجی استعمال میں لانے کا حکم
آنے والا اجلاس
جنوری 2025 میں ہونے والی ڈیپارٹمنٹل اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں محکمے کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مکمل جواب جمع کرائے اور آڈٹ سے اس کی تصدیق کرائے تاہم رپورٹ مکمل ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
فوری اقدامات کی سفارشات
رپورٹ میں فوری کرنے کیلئے درج ذیل اقدامات کی سفارش کی گئی ہے: یوٹیلٹی کنکشنز، گاڑیوں کی رجسٹریشن اور غیر ملکی سفر کے ریکارڈ کی بنیاد پر ممکنہ ٹیکس دہندگان کی لازمی رجسٹریشن کی جائے؛ آڈیٹرز کو معلوماتی پورٹلز تک رسائی دی جائے تاکہ وہ باہمی طے شدہ اصولوں کے تحت ڈیٹا کا جائزہ لے سکیں؛ داخلی نگرانی کا نظام مضبوط بنایا جائے اور نادرا، گاڑی و جائیداد رجسٹرارز، اور ودہولڈنگ ایجنٹس کے ساتھ ادارہ جاتی رابطہ بہتر کیا جائے تاکہ ٹیکس قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔








