خواجہ آصف کا ہائبرڈ نظام کا اعتراف اور بلال غوری کا کالم

خواجہ آصف کا بیان اور اس کا تنقیدی جائزہ
وزیر دفاع اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کے حالیہ بیان کو ہمارے دوست محمد بلال غوری نے قومی اخبار روزنامہ ”جنگ“ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں بظاہر حقیقت پسندی اور جرات اظہار کی ایک مثال بنا کر پیش کیا مگر درحقیقت یہ تحریر ایک ایسے بیانیے کو ”شعوری یا غیر شعوری“ طور پر ”جواز“ فراہم کرتی ہے جسے قوم دہائیوں سے بھگت رہی ہے۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: میانوالی؛ خاتون نے نکاح سے انکار پر نوجوان کو فائرنگ کرکے قتل کردیا
بیانیے کی نوعیت
یہ وہی بیانیہ ہے جو ہر ”آمر“ کے اقتدار کو ”دوام“ دینے کے لیے تراشا جاتا ہے اور ہر جمہوری حکومت کی ”بے بسی“ کو ”تقدیر“ بنا کر پیش کرتا ہے۔۔۔اس کالم میں جہاں خواجہ آصف کی سچ گوئی کو سراہا گیا، وہیں پاکستان کے لیے ”ہائبرڈ نظام“ کو نہ صرف ایک قابل قبول بلکہ ایک ”فطری مجبوری“ کے طور پر پیش کیا گیا، گویا جمہوریت ایک ”مہنگی، ناکام اور غیر ضروری ضد“ ہو، جس کا نعم البدل کسی مفروضہ عقلیت کے تحت ہائبرڈ سسٹم میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: کہیں تمہارا بیپر نہ پھٹ جائے: وہ ‘دھمکی آمیز’ جملہ جس پر سی این این کو مہدی حسن سے معافی مانگنی پڑی
خاموشی کا قومی جرم
یہی نقطہ اس پورے بیانیے کی جڑ ہے جس پر خاموشی اختیار کرنا یا اسے معمول کا حصہ سمجھنا ایک ”قومی جرم“ کے مترادف ہے۔۔۔۔کیا ہر سچ صرف اس لیے ”معتبر“ مان لیا جائے گا کہ وہ ایک تجربہ کار سیاستدان کی زبان سے نکلا؟کیا جمہوری اقدار کی پامالی پر ”پردہ“ ڈالنے والے بیانات کو محض اس لیے سراہا جائے گا کہ وہ ”حقیقت پسندانہ“ لگتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ ہر آمریت اپنے قیام کے وقت خود کو وقت کی ضرورت، قومی سلامتی یا عوامی فلاح کا تقاضا بنا کر پیش کرتی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی حملے کا ایران کی جانب سے کیا جواب متوقع ہے؟ کس جگہ کو اور کیسے نشانہ بنایا جائے گا؟
تاریخی مثالیں
ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ہر دور میں یہی کہا گیا کہ یہ عبوری بندوبست ہے لیکن ”عبور کا پل“ کبھی مکمل نہ ہو سکا اور قوم مسلسل ایک دائرے میں گھومتی رہی۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا کے وزیر دفاع کا وفد کے ہمراہ جی ایچ کیو کا دورہ، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات
فکری غنودگی اور مثالوں کی کمی
برادرم بلال غوری کا قلم کئی جگہوں پر حقیقت نگاری کے بجائے ”فکری غنودگی“ میں نظر آتا ہے۔۔۔ وہ ہائبرڈ سسٹم کو ہائبرڈ گاڑیوں، بیجوں اور حیوانی دوغلی نسلوں سے تشبیہ دے کر عام قاری کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کوئی ”انہونی یا غیر فطری“ شے نہیں بلکہ ایک سمارٹ، موزوں اور جدید ماڈل ہے جو محدود وسائل میں بہترین نتائج دے سکتا ہے مگر یہ مثالیں، خواہ کتنا ہی ادبی رنگ لیے ہوں، دراصل ایک ”غیر جمہوری بندوبست“ کو ”حسنِ تعبیر“ کے پردے میں چھپانے کی کوشش ہیں۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: فرانسیسی صدر کو اہلیہ سے ’تھپڑ‘ پڑنے پر صدر ٹرمپ کا موقف بھی آگیا
سیاسی مستقبل کی علامات
کیا دوغلی نسل کا خچر، جو نہ گھوڑا ہوتا ہے نہ گدھا مگر دونوں کا بوجھ ڈھوتا ہے، کسی قوم کے سیاسی مستقبل کی علامت بن سکتا ہے؟ کیا ایک ایسا بیج، جو مصنوعی طور پر تیار کیا جائے، اپنے اندر زمینی حقیقتوں کے خلاف ”ارتقائی مزاحمت“ رکھتا ہے، کبھی ”قدرتی ثمر“ دے سکتا ہے؟ اگر نہیں، تو ہم ایک ”سیاسی خچر“ سے ”جمہوریت کی سواری“ کا خواب کیوں دیکھ رہے ہیں؟؟؟
یہ بھی پڑھیں: شریف فیملی کا اہم مشاورتی اجلاس، پنجاب کابینہ میں توسیع کا فیصلہ
جمہوریت کی وقعت
ہائبرڈ کار ایک سائنسی ایجاد ہے، اس کا موازنہ ایک ایسے سیاسی نظام سے کرنا جس میں عوام کے ووٹ، دستور، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے تقدس کو داؤ پر لگا دیا گیا ہو، درحقیقت عوامی شعور کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک مہذب، نرم لہجے میں ”جمہوریت کی قبر پر پھول چڑھانے“ جیسا عمل ہے، جسے کسی بھی باشعور قاری کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور میں گاڑی پر فائرنگ، ۵ افراد جاں بحق
تنقید کا توازن
کالم میں عمران خان اور تحریک انصاف پر جو تنقید کی گئی وہ درست صحیح لیکن یہ تنقید غیر متوازن رہی۔۔۔ اگر تحریک انصاف ”سلیکٹڈ“ تھی تو موجودہ حکومت ”ری انسٹالڈ“ سے زیادہ کچھ نہیں مگر اس طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ تنقید کا مرکز ایک مخصوص سیاسی جماعت ہے، نہ کہ نظام کی ساخت یا اُس کی اصل خرابی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم کا غزہ پٹی کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کا اعلان
سچ بولنے کی ضرورت
بلال غوری نے خواجہ آصف کے بیان کو سچ بولنے کی ہمت سے تعبیر کیا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ سچ کہنا کافی نہیں ہوتا، اصل بات یہ ہے کہ سچ کس کو کہا جا رہا ہے اور کس نیت سے۔۔۔ اگر ایک وزیر خود اعتراف کر رہا ہے کہ اس کے پاس اختیارات نہیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ وہ منصب پر کیوں براجمان ہے؟ کیا وہ عوام کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ووٹ بے معنی ہو چکا ہے؟ کیا وہ جمہوریت کی روح کو دفن کرنے کی کارروائی میں شریک ہے یا صرف مبصر بن کر تالیاں بجا رہا ہے؟؟؟
یہ بھی پڑھیں: ایران پر امریکی حملوں کے بعد سعودی عرب کے ماحول میں تابکاری کے آثار نہیں ملے،سعودی جوہری ریگولیٹر
عوامی توقعات اور ذمہ داریاں
کالم میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ کون ”حکومت“ کر رہا ہے، بس روز مرہ زندگی بہتر ہونی چاہیے۔۔۔ یہ ایک نیم سچ ہے جسے ”مکمل سچ“ بنا کر پیش کرنا عوامی شعور کی توہین ہے۔۔۔ کیا یہ سوال نہیں بنتا کہ اگر حکومت کی ذمہ داری صرف عوامی سہولت ہے تو پھر آئین، قانون، پارلیمنٹ اور عدلیہ جیسے ادارے کیوں قائم کیے گئے؟ کیا ہم محض پیٹ بھرنے کو قومی ترقی کا معیار بنا لیں؟ اگر ہاں تو پھر آمریت اور بادشاہت میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟؟؟
یہ بھی پڑھیں: بھارتی دھمکی کے بعد چین نے مہمند ڈیم کی تعمیر تیز کردی
ہائبرڈ ماڈل کی حقیقت
یہ کہنا کہ ہائبرڈ ماڈل ایک وقتی ضرورت ہے، درحقیقت اس سسٹم کو معمول پر لانے کی کوشش ہے۔ بلال غوری نے دیگر ممالک جیسے ایران، ہنگری اور وینزویلا کی مثال دے کر گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان تنہا نہیں جو اس راستے پر چل رہا ہے لیکن کیا وہ یہ بتانا بھول گئے کہ ان ہی ممالک میں آزادی اظہار، انسانی حقوق اور سیاسی استحکام کس حال میں ہیں؟ کیا ان ممالک کے عوام اپنے نظام پر مطمئن ہیں؟ کیا ہم بھی انہی راہوں پر چل کر وہی ”نتائج“ چاہتے ہیں؟؟؟
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کی نئی پابندیوں پر ایران کا ردعمل آگیا
خواجہ آصف کی عاجزانہ فریاد
خواجہ آصف کی بات کو اگر مکمل سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے تو وہ ایک بے بس سیاستدان کی عاجزانہ فریاد لگتی ہے، نہ کہ کوئی دانشورانہ سیاسی نظریہ۔۔۔ اُن کی باتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جب عوامی نمائندے ریاستی اداروں کے سامنے لاچار ہو جائیں تو بہترین راستہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ مل کر نظام چلایا جائے۔۔۔ یہ سوچ کمزوری کا عذر ہے، شعور نہیں۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: افغان شہریوں کی واپسی، شکایات کے ازالے کیلئے کنٹرول روم قائم
امیدیں اور توقعات
برادرم بلال غوری جیسے پڑھے لکھے، سنجیدہ اور باخبر کالم نگار سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ اس بیانیے کو اتنی سہولت سے قبول کریں گے اور اپنی قلم سے اسے نرمی، فصاحت اور تمثیل کے پردے میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کریں گے۔۔۔ اُن کی تحریر میں اس نظام کی ساخت، نقصانات، آئینی خلاف ورزیوں، پارلیمانی بے توقیری اور عدالتی غیر جانبداری جیسے اہم نکات کا مکمل فقدان نظر آتا ہے۔۔۔
آنے والی نسلوں کے لئے سوالات
آج کا باشعور قاری سوال کرتا ہے کہ آخر کب تک ہم ”تجربات“ کی بھٹی میں جھونکے جاتے رہیں گے؟ کیا ہر آنے والا وقت ہمیں مزید بے بس، مزید محتاج اور مزید محکوم بناتا رہے گا؟ کیا ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں؟ کیا ہمیں یہ سوچنے کا حق نہیں کہ اگر 76 سال بعد بھی ہمیں ہائبرڈ نظام کو وقتی مجبوری کے طور پر قبول کرنا ہے، تو ہماری سیاسی دانش کہاں کھڑی ہے؟؟؟