مشاہدات کی بناء پر اس نتیجے پر پہنچے کہ یوتھ موومنٹ کے بیشتر عہدیداران اور کارکنان محب وطن لوگ ہیں اور قومی خدمت کے جذبات سے سرشار ہیں

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 87
1960ء کے عشرہ کے چند اہم موڑ
1960ء کے عشرہ کے دوران چند ایسے واقعات پیش آئے جن کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ غالباً یہ 1965-66ء کی بات ہے کہ مجھے یوتھ موومنٹ کے مرکزی دفتر فضل بلڈنگ کوپر روڈ لاہور ایک صاحب ملنے آئے جن کا نام جہانگیر اے خان تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یوتھ موومنٹ سنٹر میں منعقدہ تقاریب میں پچھلے 2سالوں سے شامل ہوتے آ رہے تھے لیکن مجھ سے پہلی دفعہ بالمشافہ مل رہے ہیں۔
جہانگیر اے خان ان دنوں لاہور میں ڈائریکٹر پریس انفارمیشن کے عہدے پر تعینات تھے اور وہ درپردہ رہ کر خاموشی سے یوتھ موومنٹ کی سرگرمیوں کو واچ کر رہے تھے کہ یوتھ موومنٹ کے لوگ کون ہیں۔ کیا ہیں کن نظریات کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مجھے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مجھے سب سے فعال ترین کارکن پایا ہے اس لئے وہ مجھ سے آج خصوصی طور پر ملنے آئے ہیں۔ انہوں نے مجھے مزید بتایا کہ وہ مشاہدات کی بناء پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یوتھ موومنٹ کے بیشتر عہدیداران اور کارکنان محب وطن لوگ ہیں اور قومی خدمت کے جذبات سے سرشار ہیں۔
باتوں ہی باتوں میں وہ میرے دوست بن گئے اور انہوں نے مجھے اپنے گھر بھی بلوانا شروع کر دیا۔ گھر میں ملازمین کے علاوہ ان کی صرف ایک والدہ ہوتی تھیں جن کی وہ بہت عزت و خدمت کرتے تھے۔ جہانگیر اے خاں کی بہنیں بھی اپنی والدہ سے ملنے ان کے گھر واقع کوئینز روڈ جہاں آج گنگارام کی ایمرجنسی ہے سے ملحقہ موجودہ پارکو پٹرول پمپ کے بالمقابل کوٹھی میں آیا کرتی تھیں۔
جہانگیر اے خان پاک و ترک فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے صدر حکیم نیر واسطی کے گھر واقع بیرون مستی گیٹ تقریبات میں میرے ساتھ جا کر شامل ہونے لگ گئے۔ حکیم صاحب کے ہاں میرا جانا ترکی سے آئے ہوئے گورنمنٹ کالج میں میرے کلاس فیلو طالب علم جن کا نام محمد رمضان تشدر ماس تھا کے ہمراہ ہوتا تھا۔ وہ گونمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب علم تھے اور میرے ساتھ گورنمنٹ کالج کے نیو ہاسٹل میں قیام پذیر تھے۔
حکیم نیر واسطی کا شمار بڑی عالم فاضل شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ سالانہ تقریبات میں ان کے ہاں مجھے پروفیسر حمید احمد خاں، ڈاکٹر سید عبداللہ اور دیگر بہت ساری علمی شخصیات کو دیکھنے اور ملنے کا اتفاق ہوا۔ جہانگیر اے خان کچھ عرصے بعد ٹرانسفر ہو کر بطور ڈپٹی سیکرٹری ٹیلی ویژن کارپوریشن لاہور سے راولپنڈی چلے گئے، اس طرح ان سے مسلسل رابطہ منقطع ہو کے رہ گیا۔
پیشتر ازیں جب وہ لاہور میں تھے تو انہوں نے مجھے اپنے گھر پر پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق شاعر پاکستان حفیظ جالندھری سے ملوایا اور وہ مجھے ان کی ہمراہی میں اسلامیہ کالج پتوکی ایک تقریب میں لے گئے جو کالج کے پرنسپل نے حفیظ جالندھری کے اعزاز میں منعقد کی تھی۔ اس طرح مجھے حفیظ جالندھری کو قریب سے دیکھنے، ملنے اور ان کا کلام سننے کا موقع ملا۔
آج 2020ء کے عشرہ میں مولانا ظفر علی خاں فاؤنڈیشن آڈیٹوریم واقع 21 مسلم ٹاؤن لاہور میں ہفتہ وار فکری نشستوں میں میرا جانا ہوتا ہے۔ وہاں فاؤنڈیشن کے چیئرمین سابق سینئر بیوروکریٹ خالد محمود صاحب کے ساتھ حفیظ جالندھری کی قابلِ فخر بیٹی محترمہ رضا ریاض اور اْن کے شوہر جناب ریاض صاحب سے بھی ملاقات رہتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔