جان جیکب کی قبر پر ایک طرف ہندو دیئے جلاتے پوجا پاٹ کرتے تو دوسری طرف مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق چادر چڑھاتے اور دعا کرتے

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 178
جیکب آباد کا تعارف
یہاں سے نئی تبدیل ہونے والی لائن پرسفر کرتے ہوئے جیکب آباد پہنچتے ہیں جو سندھ کا آخری شہر اور ایک بڑا ریلوے جنکشن بھی ہے۔ جیکب آباد میں سے 3 مختلف اطراف کو گاڑیاں گزرتی ہیں، یعنی ایک کوٹری کو، دوسری اٹک کو جو ایم ایل2 کہلاتی ہے اور تیسری سبی- کوئٹہ- چمن، جو ایم ایل3 کہلاتی ہے مگر آگے کوئٹہ پہنچ کر ایک اور لائن ایم ایل 4 بھی نکلتی ہے جو تفتان سے ہوتی ہوئی ایران جاتی ہے اور ایک سندھ لائٹ ریلوے لائن جیکب آباد سے لاڑکانہ بھی ہوتی تھی جس کو براڈ گیج میں تبدیل کرکے اسے ایم ایل2 کے روٹ یعنی کوٹری- اٹک کے لیے چن لیا گیا ہے۔
حیات اور تعمیرات
جیکب آباد سندھ کا ایک بہت بڑا ضلع ہے اور یہاں بڑی تعداد میں سرکاری دفاتر، عدالتیں، اسپتال اور درسگاہیں وغیرہ موجود ہیں۔ جیکب آباد کی کوئی اپنی یونیورسٹی تو موجود نہیں تاہم سندھ کی بڑی یونیورسٹیوں کے کیمپس موجود ہیں۔ یہاں پاکستان ایئر فورس کا ایک بڑا ہوائی اڈہ بھی ہے جو افغانستان کی جنگ کے دوران کافی مشہور ہو گیا تھا۔ یہاں ایئر فورس والے بھی کچھ تعلیمی اور تربیتی کورس وغیرہ کرواتے ہیں۔ سندھ کا سالانہ اور مشہور میلہ مویشیاں بھی یہیں لگتا ہے۔
جیکب آباد کے دلچسپ حقائق
یہاں کچھ دیر ٹھہر کر جیکب آباد کے بارے میں مزید بات کر لیتے ہیں۔ یہ سندھ کا آخری بڑا قصبہ ہے جس کا پرانا نام خان گڑھ تھا۔ تب انگریز حکومت نے جنرل جان جیکب کو یہاں کا حکمران بنا کر بھیجا۔ اس نے یہاں رہ کر اتنے زیادہ ترقیاتی کام کیے کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔ وہ چونکہ خود بھی فن تعمیر کا ایک ماہر انجینئر تھا، اس لیے اس نے اس قصبے کو نئے سرے سے ڈیزائن کرکے اسے برطانوی طرز کا ایک چھوٹا سا مگر خوبصورت اور جدید شہر بنا دیا۔
یہاں اس نے نہ صرف انتظامی اور مالیاتی امور سنبھالے بلکہ امن و امان کے مسائل کو اتنے بہترین اور مؤثر انداز میں حل کیا کہ علاقے کے ایک روایت کے مطابق رات کو بھی تنہا عورت سونا پہن کر نکلتی تھی تو کسی کی جرأت نہیں تھی کہ اس کے قریب بھی پھٹک سکے۔ ایک بہترین منصوبہ بندی کے تحت اس نے اس علاقے میں نہریں بنوائیں اور کم از کم 20 ہزار ایکڑ بنجر اور غیر آباد ریگستانی زمین کو کاشت کے قابل بنوا کر اسے سیکڑوں گھرانوں میں تقسیم کرکے ان کے لیے نہ صرف باعزت روزگار کا انتظام کیا بلکہ انھیں سر اٹھا کر چلنے کا حوصلہ بھی دیا اور ان کی دعائیں سمیٹیں۔
جنرل جان جیکب کی وراثت
اس کے ان اقدامات کی وجہ سے مجموعی طور پر اس علاقے کے باسیوں میں چند ہی برسوں میں بہت زیادہ خوشحالی آگئی اور یہاں کے مقامی باشندے سندھ کے دوسرے قصبوں کے لوگوں کی نسبت ایک ٹھیک ٹھاک اور آسودہ زندگی گزارنے لگے تھے۔ جان جیکب نے کوئی 20 سال تک یہاں حکمرانی کی۔ لوگ اس سے اس قدر محبت کرنے لگے تھے کہ انھوں نے اس شہر کا نام خان گڑھ سے بدل کر جیکب آباد رکھ دیا، جس کو بعد ازاں بدلنے کی تمام کوششیں یہاں کے مقامی شہریوں نے ناکام بنا دیں اور خان گڑھ آج بھی جیکب آباد ہی کہلاتا ہے۔
جنرل جیکب کی موت جوانی میں ہی یعنی صرف 46 برس کی عمر میں ملیریا سے ہو گئی تھی اور اس کو یہیں جیکب آباد میں ہی دفن کر دیا گیا۔ اس سے مقامی لوگوں کی عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کے مسیحی قبرستان میں اس کا مزار بنا دیا گیا جہاں ایک طرف ہندو دیئے جلاتے اور پوجا پاٹ کرتے تھے تو دوسری طرف مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق اس کی قبر پر چادر چڑھاتے اور دعا کرتے تھے۔ یہ مذہب سے زیادہ ان کی جان جیکب سے عقیدت اور اس سے محبت کا اظہار تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔