جب بھی کسی مشکل میں فیصلہ کرنا ہوتا تو نماز میں اللہ سے رہنمائی کی التجا کرتا، مجھے کوئی نہ کوئی اشارہ ضرور مل جاتا، یہ اللہ کی مجھ جیسے خاص عنایت تھی

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 220
نماز میں دعا
فجر کی نماز میں دل میں خیال آیا کیوں نہ اے سی کو سچ سچ بتا کر رعائت حاصل کرنے کی درخواست کی جائے۔ نماز ختم کی تو میرے دل میں ایک جاندار بات جنم لے چکی تھی۔ (میں جب بھی کسی مشکل میں یا مجھے کوئی مشکل فیصلہ کرنا ہوتا تو نماز میں اللہ سے راہنمائی کی التجا کرتا۔ یقین کریں مجھے کوئی نہ کوئی اشارہ ضرور مل جاتا تھا۔ یہ اللہ کی مجھ جیسے پر خاص عنایت تھی۔)
معاملات کی گتھی
اگلے روز یہ دونوں اصل رجسٹر سمیت آگئے اور پھر سے منت سماجت کرنے لگے۔ میں نے اصل رجسٹر دیکھا نہ تو کسی بچے کا نام کاٹا گیا تھا اور نہ ہی کسی بچے کے کوائف تبدیل کئے گئے تھے۔ بس ان بچوں کے نام نہایت مہارت سے ایڈجسٹ کر کے رجسٹر نیا بنایا گیا تھا۔
اے سی سے ملاقات
میں اسلم سے کہا؛ "دعا کر میرے ذہن میں ایک بات ہے اگر اے سی کی سمجھ میں آ گئی تو ٹھیک ورنہ جو اللہ کو منظور۔" میں اس اے سی کو ملا۔ انہوں نے پوچھا؛ "شہزاد! جو کام آپ کے ذمہ تھا کیا بنا اس کا؟" میں نے جواب دیا؛ "سر! سارا کیس تیار ہے لیکن آپ سے ایک بات کرنی ہے اگر برا نہ منائیں تو۔" بولے؛ "نو سفارش۔ کہو کیا کہنا ہے۔"
تعلیم کا مستقبل
میں نے انہیں ساری بات بتاتے کہا؛ "سر! ان چھ میں سے چار بچے اس شخص کے اپنے ہیں باقی دو میں ایک بہن اور ایک بھائی کا ہے۔ سر! بچے باہر چلے جائیں گے تو ان کا مستقبل بن جائے گا۔ بڑے ہوں گے کمائیں گے اس ملک کو زر مبادلہ بھیجیں گے۔ یہاں کی آوارہ گردی سے بچ جائیں گے اور بہتر انسان بن جائیں گے۔ سب سے بڑی بات کہ ان بچوں کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے اور پہلے سے درج کسی دوسرے بچے کے کوائف بھی تبدیل نہیں کئے گئے ہیں۔ میں اصل رجسٹر ساتھ لایا ہوں۔ آپ بھی دیکھ سکتے ہو۔ اب جیسے آپ فرمائیں۔"
اے سی کی رضامندی
وہ سوچ میں پڑ گئے اور پھر بولے؛ "شہزاد! مجھے خوشی ہوئی تم نے سچ بتایا ہے۔" انہوں نے اصل رجسٹر دیکھا اور میری بات انہیں سمجھ آ گئی۔ بولے؛ "درست کہا آپ نے کل یہ بچے کارآمد شہری بنیں گے۔ آپ یہ رجسٹر اپنے پاس رکھ لو، کوئی رپورٹ مت کرو۔ دو تین ہفتوں میں میرا تبادلہ ہونے والا ہے پھر رجسٹر واپس کر دینا۔" تصدیق کے لئے دستاویزات درست قرار دے کر واپس فرنچ ایمبیسی بھجوا دیں۔
احسان کا بدلہ
اس واقعہ کے ایک آدھ ماہ بعد ان کا تبادلہ لاہور ہو گیا تھا۔ اس ایک ڈیڑھ ماہ میں جتنی بھی دستاویزات تصدیق ہونے کے لئے ان کے پاس فرنچ ایمبیسی سے آئیں سبھی درست قرار دے کر واپس بھیج دی جاتی تھیں۔ ان کے پیش رو ڈاکٹر حبیب الرحمان گیلا نی نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا.
اللہ کی رحمت
اللہ نے کرم کیا تھا۔ سچ نے ارشد کی جان بچا لی تھی۔ کریڈٹ ارشد کو بھی تھا کہ اس نے مجھے سچ بتایا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہا، احسان مند رہا۔ بہت عزت دیتا تھا۔ افسوس وہ کثرت مے نوشی سے دوران سروس ہی فوت ہو گیا تھا۔ اللہ دوسروں کی مدد کے وسیلے بناتا ہے، ہم تو صرف کام کرنے والے مہرے ہیں اللہ جس مہرے کو جس کام کے لئے چن لے۔
نیکیاں اور دعا
میرا یقین ہے کہ ایسی نیکیاں جس سے کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو اگر کچھ غیر قانونی انداز سے بھی کی جائیں تو اللہ کے ہاں مقبول ہی ہوتی ہوں گی۔ میں ایسی ان دیکھی دعاؤں کا بڑا قدردان ہوں جو دل سے کوئی آپ کے لئے کر جاتا ہے۔ میری سوچ سے شاید آپ متفق نہ ہوں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔