یہی وہ وقت تھا جب ان کی روح نے اس دنیا سے پرواز کی تھی، دل اور خون کی اپنی دنیا ہے جو کہیں بھی کسی بھی وقت بدلتی نہیں،آواز دیتی ہی دیتی ہے۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 221
آنٹی فرحت کی وفات
آنٹی فرحت میری ساس اور عظمیٰ کی والدہ تھیں۔ نہایت پیار کرنے والی، سمجھ دار، سلجھی ہوئی، دور اندیش اور مہمان نواز خاتون تھیں جو عرصہ سے بیمار تھیں۔ ان کے سبھی بچوں نے ان کی خوب خدمت اور تیمارداری کی، لیکن عظمیٰ سب سے آگے تھی۔ میری شادی کے بعد بھی وہ ہر ہفتے ان کو ملنے جاتی تھیں اور بعض بار آنٹی فرمائش کرکے اسے اپنے پاس روک لیتی تھیں۔ میں نے کبھی بھی انکار نہیں کیا تھا۔ اس حوالے سے وہ مجھے اکثر کہتی: ”بیٹا! میں تمھاری احسان مند ہوں کہ تم نے عظمیٰ کو جب بھی میں نے کہا میرے پاس چھوڑ دیا۔“ عمر اس دوران میرے ساتھ ہی جاتا تھا۔ میں جواب دیتا؛ ”آنٹی! یہ احسان نہیں، بچوں کی سعادت مندی ہوتی ہے۔“ وہ خوش ہو جاتیں اور ڈھیروں دعائیں دیتی تھیں۔
وہ اکثر اپنی بڑی بیٹی لبنیٰ سے کہتی تھیں؛ ”تو لاہور ہو کر بھی میرے پاس نہیں آتی، اور یہ دور سے بھی میرے پاس تم سے پہلے پہنچ جاتی ہے۔ خلیل لبنیٰ کے میاں سے میرا گلہ ضرور کرنا۔“
ایک بار میری والدہ نے مجھ سے کہا؛ ”پتر، توں ہر ہفتے نہ آ کیوں نہیں کر کے پیسے بچا۔“ میں نے جواب دیا؛ ”امی! عظمیٰ کی والدہ بیمار ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی کہے کہ ماں کو ملنے سے روکا تھا۔“ وہ کہنے لگیں؛ ”پتر! فیر اروکیں وی نہ۔“
عظمیٰ اس روز ہفتہ بھر لاہور رہنے کے بعد احمد کے ساتھ واپس آئی تھی۔ میں نے اور عمر نے اسے گوجرانوالہ سے لیا اور کھاریاں چلے آئے۔ اسی رات آنٹی کی طبیعت بگڑی۔ رات سوا گیارہ بجے ہم کھاریاں سے نکلے اور ایک بج کر پانچ منٹ پر اس کے گھر کینٹ پہنچے تو آنٹی اس دنیا سے اپنے ابدی گھر کوچ کر چکی تھیں۔ راستے میں اوجلہ پل سے گزرتے ہوئے اس نے زور زور سے اپنے ہاتھ گاڑی کے سٹیرنگ پر مارتے بولی؛ ”اور میری امی، او میری امی۔“ یہی وہ وقت تھا جب ان کی روح نے اس دنیا سے پرواز کی تھی۔ دل اور خون کی اپنی دنیا ہے جو کہیں بھی کسی بھی وقت بدلتی نہیں۔ آواز دیتی ہی دیتی ہے۔
یہ نومبر 1992 تھا۔ اس وقت عمر 3 اور احمد 2 سال کا تھا۔
آفیسرز کلب کھاریاں
کھاریاں میں افسروں کے بیٹھنے، گپ شپ لگانے اور کھیلنے کی کوئی بھی جگہ نہ تھی۔ شام بڑی بور گزرتی۔ اتک روز ڈاکٹر عامر کہنے لگے کیوں نہ تحصیل دفتر کے پکے صحن میں بیڈ منٹن شروع کی جائے۔ یہی تجویز کھاریاں افسیرز کلب کی بنیاد بن گئی۔ کلب کے memorandum of association میں نے تیار کیا۔ کلب کے بورڈ تشکیل دیا۔ (اس میں اے سی کھاریاں (صدر)، سینئر سول جج کھاریاں (نائب صدر)، پرا جیکٹ منیجر کھاریاں (سیکرٹری)، تحصیل دار کھاریاں، ایس ڈی او شاہرات ممبر تھے۔)
جب memorandum of association بورڈ میں پیش کیا تو پہلی بد مزگی ہوئی۔ سول جج ملک محمد اکرم صاحب ایک پرائیوٹ شخص کو ممبر بنوانے پر بضد تھے (جس کی شہرت کوئی اچھی نہ تھی) جو کسی طرح ممبر شپ کی تعریف پر پورا نہیں اترتا تھا۔ بورڈ کے دوسرے ممبران بھی نہ مانے، یوں ملک اکرم صاحب ناراض ہوئے اور انہوں نے خود بھی ممبر شپ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کی جگہ ان کے دوسرے ساتھی بورڈ میں شامل ہوئے۔
روز شام کو مغرب کی نماز کے بعد سے یہاں سب افسر اکھٹے ہوتے اور خوب رونق رہتی تھی۔ کھاریاں کے سائل کنزویٹر افسر ملک جاوید، جو تبادلہ جہلم ہو گیا تھا، وہ بھی روز کھیلنے آتے تھے۔ جاوید بھی زندہ دل اور یار دوست انسان تھا۔ اس سے کبھی کبھار رابطہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر بنگش، ڈاکٹر اسماعیل بھی اس کلب کے سرگرم رکن تھے۔
بعد میں ہفتہ میں دو بار چکن کڑاہی (جو قریبی بازار سے بنوائی جاتی تھی) کا ڈنر بھی ہونے لگا تھا۔ کلب عشرت علی کے وقت تک قائم رہا۔ سبھی افسران یہاں آتے، گپ شپ بھی رہتی اور کھیل بھی چلتا رہتا تھا۔ بڑے شہروں سے دور ایسے چھوٹے قصبات میں ایسی سہولت لہو بھی گرم رکھتی ہے اور شام کی مصروفیات کا بہانہ بھی ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔