پشاور ہائیکورٹ؛ مخصوص نشستوں کی تقسیم کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ محفوظ
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کی تقسیم کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرین کی بوگیوں سے تانبے کی تار چوری کرنے والے بین الصوبائی گروہ کے 9 ملزمان گرفتار، مگر کن کن شہروں سے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
سماعت کی تفصیلات
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق، پشاور ہائیکورٹ میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال نے سماعت کی۔ وکیل درخواست گزار نے بیان دیا کہ خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے لئے درخواست دائر کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پلیز ! نا تو گندی ویڈیوز بنائیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر شیئر کریں، چاہت فتح علی خان کی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے درخواست
الیکشن کمیشن کی جانب سے نشستوں کی تقسیم
وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کی تقسیم منصفانہ نہیں کی۔ ہمیں 8 کی بجائے 9 خواتین کی مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں تھیں۔ الیکشن کمیشن نے جے یو آئی کو 10 مخصوص نشستیں دی ہیں، جبکہ ن لیگ اور جے یو آئی کو 9،9 نشستیں ملنی چاہئیں تھیں۔ ہم نے صوبائی اسمبلی کی 5 جنرل نشستیں جیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کے خلاف 8 مقدمات میں مدعی پولیس، تمام میں سازش کی نوعیت اور تفصیل کا ذکر نہیں، وکیل سلمان صفدر کے ضمانت کی درخواستوں پر دلائل
عدالت کے سوالات
عدالت نے سوال اٹھایا کہ جب پراسیس مکمل نہیں ہوتا تو نشستوں کی تقسیم کیسے کی جا سکتی ہے؟ سپیشل سیکرٹری لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کے 21 دن بعد اسمبلی اجلاس بلانا لازم ہوتا ہے۔ جسٹس سید ارشد علی نے وضاحت کی کہ آپ نے آزاد ارکان کو پارٹیوں میں شامل ہونے کے لیے 22 فروری آخری تاریخ مقرر کی۔
یہ بھی پڑھیں: سحرش علی نے یو ایس ورجینیا گولڈ سرکٹ میں گولڈ میڈل جیت لیا
21 نشستوں کی منطق
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ آپ نے 5 نشستیں 22 فروری کی پارٹی پوزیشن پر دیں، جبکہ 21 نشستیں مارچ میں دی گئیں۔ اس کی کیا منطق ہے؟ سپیشل سیکرٹری لاء الیکشن کمیشن نے وضاحت کی کہ 22 فروری کی پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر نشستیں دی گئی ہیں۔ جسٹس ارشد علی نے کہا کہ اگر آپ تمام نشستیں 22 فروری کو دیتے تو مسئلہ مختلف ہوتا۔
فیصلے کا انتظار
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔