خاموش ہوئی وہ زبان، جسے گفتگو میں کمال تھا

زبیدہ مصطفیٰ: ایک شاندار صحافی اور مصنفہ
زُبیدہ مصطفیٰ صاحبہ (زُبیدہ آپا) کی شخصیت بطورِ صحافی اور مصنّفہ کے لائقِ ستائش تو تھی ہی، اُن کا منفرد اور شگفتہ اندازِ تکلّم بھی دلوں کو موہ لیتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں سینیٹ کی خالی نشست پر انتخاب کیلئے پولنگ جاری، 4 امیدوار مدمقابل
پروگرام کی یادیں
زبیدہ آپا کے انتقال کی خبر سُن کر ذہن میں وہ مناظر اُمڈ آئے، جب میں اربن ریسورس سینٹر (یو آر سی) کراچی میں ایک آگاہی پروگرام میں شریک تھا۔ زبیدہ آپا اُس پروگرام میں بحیثیتِ مہمان شریک تھیں اور موضوعِ پروگرام پر اپنے خیالات، تجربات اور رائے کا اظہار کر رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ فل کورٹ بنا کر 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستیں سنے، بیرسٹر گوہر
مہذب اندازِ گفتگو
شفیق لہجہ، قائدے قرینے سے آراستہ مہذب اندازِ گفتگو، اور اپنی بات سمجھانے کے خوبصورت انداز نے شرکائے محفل پر اپنا ایک اثر قائم کر رکھا تھا۔ حاضرینِ پروگرام اُنہیں نہ صرف توجہ سے سُن رہے تھے بلکہ اُن کے اندازِ گفتگو سے محظوظ بھی ہو رہے تھے۔ عام طور پر ایسا دیکھنے میں نہیں آتا، اکثر و بیشتر پروگراموں میں لوگ ایک وقت تک مقررین کو سنتے ہیں، اور پھر مزید گزرتا وقت توجہ اور یکسوئی کا وہ معیار برقرار نہیں رکھ پاتا۔ لیکن کمال بات تھی کہ زبیدہ آپا کے سامعین وقت گزرنے کے احساس سے عاری نظر آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالرؤف خان نے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ بند کرنے سے متعلق بیان پر شعیب ملک کی کلاس لے لی
تعلیم و تربیت پر گفتگو
پروگرام کے آخر میں اُن سے گفتگو کا موقع میسر آیا تو زبیدہ آپا کی کافی باتوں میں تعلیم، تربیت، آگاہی اور شعور کے حوالے شامل رہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئی سی سی کا وائیڈ بال قانون میں تبدیلی کا فیصلہ، ٹرائل کا آغاز جلد ہوگا
زبیدہ آپا کا انمول وجود
"کیا آپ کا تعلق لکھنؤ سے ہے؟" وہ گفتگو میں خود کے لیے "میں" کے بجائے "ہم" کا صیغہ استعمال کر رہی تھیں، تو میرے سوالوں میں ایک سوال یہ بھی تھا، جس کا انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا۔
زبیدہ آپا جیسی شخصیت کو بھُولنا مشکل ہوگا۔ دعا ہے کہ وہ غریقِ رحمت ہوں۔
نوٹ
یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔