نیتن یاہو کا مستقل جنگ بندی پر مشروط آمادگی کا اظہار، 60 روزہ سیزفائر کے دوران غزہ کو غیر مسلح کرنے کی شرط

نیتن یاہو کا غزہ میں جنگ بندی کا اعلان
واشنگٹن/دوحہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے جمعرات کو کہا ہے کہ اگر فلسطینی علاقے غزہ کو غیر مسلح کر دیا جائے تو اسرائیل 60 روزہ سیزفائر کے دوران مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات پر آمادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی بنیادی شرط ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے اور اسے کوئی عسکری یا حکومتی طاقت حاصل نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ سے پنجاب کی خالی نشست کا الیکشن کیوں ملتوی کیا گیا؟ وجہ سامنے آ گئی
مذاکرات کی پیشرفت
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس کے نمائندے دوحہ میں بالواسطہ مذاکرات میں مصروف ہیں، جس کا مقصد جنگ میں عارضی وقفہ لانا ہے۔ یہ جنگ اکتوبر 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کامن ویلتھ پاورلفٹنگ چیمپئن شپ میں نوح دستگیر بٹ نے گولڈ میڈلز جیت لیے
مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات
نیتن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے 60 دن کی جنگ بندی کی تجویز دی ہے، جس کے بدلے میں غزہ میں موجود 20 زندہ یرغمالیوں میں سے کم از کم نصف کو رہا کیا جائے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا، ’’اس سیزفائر کے آغاز پر ہم جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے مذاکرات میں داخل ہوں گے۔‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ اگر 60 دن کے اندر مذاکرات کے ذریعے حماس کو غیر مسلح اور بے اختیار نہ کیا جا سکا تو اسرائیل اپنی فوجی طاقت کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: نئے انتخابات میں نواز شریف پھر وزیراعظم بن گئے، انہوں نے بڑے سیاسی قرینے سے بے نظیر بھٹو کو ہم خیال بنایا اور آئین سے 58ٹو بی کا خاتمہ کر دیا.
حماس کا ردعمل
نیتن یاہو نے حماس کو ’’بے رحم دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل تمام یرغمالیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ’’ہم اس مرحلے میں زیادہ سے زیادہ یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانے کی پوری کوشش کریں گے، مگر سب کچھ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔‘‘
انسانی بحران اور امداد کے مطالبات
دوسری جانب حماس نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ 10 زندہ یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہے، لیکن جمعرات کو تنظیم نے واضح کیا کہ وہ ایسے کسی معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گی جس کے تحت غزہ میں بڑی اسرائیلی فوجی موجودگی برقرار رہے۔ حماس نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے امداد کی آزادانہ فراہمی یقینی بنائی جائے اور مستقل امن کے لیے ’’حقیقی ضمانتیں‘‘ دی جائیں۔