سرکاری جیپ خراب ہو گئی، ہم پیدل واپس چلے پڑے، راستے میں بادشاہ عالم گیر کا تعمیر کردہ بڑا تالاب دیکھا، اسے پانی کی سپلائی کہاں سے کی جاتی تھی معمہ ہی رہا

مصنف: شہزاد احمد حمید

قسط: 225

میری بات سو فی صد درست تھی۔ اگلے روز یہ پہچان ہی نہ سکا کہ کل بھی میں ہی اسے ملا تھا) اور میں سبھی شکار کو نکل گئے۔اے سی کو کسی افسر کی ضرورت پڑی تو انہیں معلوم ہوا سبھی شکار پر گئے تھے۔

شکار کا تجربہ

اس روز کتوں کی مدد سے وائلڈ بور کا شکار کیا تھا۔ یہ خاص تربیت یافتہ کتے تھے جو وائلڈ بور کو گھیر کر حملے کر کے اسے بے سدھ کر دیتے تھے۔ شکار چلنے کے قابل نہ رہتا۔ کتوں کے ساتھ آئے لوگ وائلڈ بور کی ٹانگیں رسیوں سے باندھ دیتے۔ یہ اس جانور کے لئے تکلیف اور بے بسی کی انتہا ہوتی تھی۔ اس بے بسی سے باگڑی نے اپنی کلاشنکوف کی آدھی میگزین خالی کر کے اسے آزاد کیاتھا۔ یقین کریں وائلڈ بور کی چربی سے دھواں نکلنے لگا تھا۔

واپسی کا سفر

واپسی پر انصر اپنی جیپ پر جلدی چلا گیا جبکہ ہماری سرکاری جیپ خراب ہو گئی۔ہم پیدل ہی واپس چلے پڑے۔ راستے میں بادشاہ عالم گیر کا تعمیر کردہ بڑاتالاب دیکھا۔ اسے پانی کی سپلائی کہاں سے اور کیسے کی جاتی تھی۔ معمہ ہی رہا۔

تاریخی ریسٹ ہاؤس

اس تالاب کے قریب ہی ضلع کونسل گجرات کا وہ ریسٹ ہاؤس تھا جہاں کبھی سابق صدر پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحییٰ خاں قید رہے تھے۔ پہاڑی کی ٹاپ سے اس ریسٹ ہاؤس کانظارہ دلکش تھا۔ ہم نے ایک جگہ بیٹھ کر خوب کینو مالٹے کھائے۔ شام ڈھلنے لگی تھی۔ میں، باگڑی اس کا گن مین کچھ آگے چل رہے تھے جبکہ سیماب کچھ پیچھے رہ گیا تھا۔

منزل کی طرف

ہم کٹی پھٹی سطح مرتفع کے درمیان راستہ تلاش کرتے دور سے دکھائی دینے والے اس ٹاور کی طرف بڑھ رہے تھے جس کا سایہ جی ٹی روڈ پر پڑتا تھا۔ یہی ٹاور ہماری منزل تھی۔ہمارے چلنے کی رفتار سست جبکہ سورج ڈھلنے کی تیز تھی۔ یہ علاقہ اشتہاریوں کا بھی مسکن تھا لہٰذا ان کا ڈر بھی تھا۔ ہمارے پاس دو ہی بندوقیں تھیں۔ باگڑی ہمیں ڈرا بھی رہا تھا کہ سورج ڈھلنے سے پہلے ہمیں ٹاور تک پہنچنا تھا۔ ہم زور لگاتے ہانپتے کانپتے بالآخر ٹاور پر پہنچے تو سورج ہم سے بہت دور ڈھل کر آسمان کی وسعتوں کو نارنجی رنگ سے شام کی سیاہی میں بدل رہا تھا۔

کورین اور وائلڈ بور

شام کو کلب آئے تو اے سی کہنے لگے؛”یار! مجھے بھی ساتھ لے جاتے تاکہ تحصیل میں کوئی افسر بھی نہ رہتا۔“ ان کا طنزیہ فقرہ وارننگ تھی کہ آئندہ ایسا نہیں ہو نا چاہیے۔ ڈاکٹر عامر کی ٹرانسفر کے بعد یہ شغل بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ اب جی ٹی روڈ ”ڈیول کاریج وے“ بننے لگی تھی جس کا ٹھیکہ کورین کمپنی ”ڈائیو“ کے پاس تھا۔ وائلڈ بور اور کتے کورین کی من بھاتی خواراک تھی۔ چھوٹا”سور“ دو ہزار(2000) میں بکتا جبکہ کتوں کی بھی اچھے قیمت مل جاتی تھی۔ اگلے چند سالوں میں یہاں اس جانور اور کتوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہو گئی تھی۔

پہلی بار سیٹ بلٹ نہیں باندھی

باگڑی، میں اور نعیم دھوریہ کا ایک انگریز بزنس پارٹنر(جو ولایت سے آ یا ہوا تھا) چوہدری آصف کی جیپ پر شکار کھیلنے پنڈ دادخاں جا پہنچے۔ ہم نے 2 وائلڈ بور شکار کئے۔ انگریز کے لئے یہ سب کچھ بہت سنسنی خیز تھا۔ دسمبر کی شدید سرد رات میں وہ جیپ کی اگلی سیٹ پر کھڑا سنسنی خیزی کا مزا لے رہا تھا۔ وائلڈ بور کے پیچھے بھاگتی جیپ کسی رکاوٹ سے زور دار دھماکے سے ٹکرائی۔ اس اچانک جھٹکے نے سب کو ہلا دیا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...