حمیرہ اصغر کی موت۔۔ تنہائی کی بےرحم خاموشی تھی جو آخری ساتھی بنی ۔۔۔ہم زندہ ہیں یا صرف تماشائی؟

تحریر: رانا بلال یوسف
تنہائی کی وحشت
کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں موت سے زیادہ اذیت ناک چیز تنہائی ہے۔ وہ تنہائی جو محض خاموشی نہیں، بلکہ ایک ایسی چیخ ہے جو کسی کان تک نہیں پہنچتی۔
معروف چہروں کی بے بسی
6 جولائی 2025 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں معروف ماڈل اور اداکارہ حمیرہ اصغر علی کی لاش ان کے اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی، کئی ہفتے پرانی، تنہائی میں بےکسی کی نشانی۔ اس سے چند روز قبل، معروف سینئر اداکارہ عائشہ خان، جنہوں نے ماضی میں پی ٹی وی پر روشنی بکھیری تھی، کی لاش ان کے فلیٹ سے بدبو پھیلنے پر دریافت ہوئی۔ وہ بھی تنہائی میں، خاموش، اور بےخبر۔
سماجی خاموشی کی عکاسی
یہ صرف دو عورتوں کی اموات نہیں بلکہ پورے سماج کی خاموشی کا نوحہ ہیں۔ ایک طرف لاکھوں فالوورز، سوشل میڈیا پر چمکتی تصویریں، اور اسٹیج کی روشنیوں میں واہ واہ سمیٹتی زندگی؛ اور دوسری طرف تنہائی میں سسکتی ہوئی ساعتیں، جن میں نہ کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، نہ کوئی حال پوچھنے آتا ہے۔
رشتوں کی روحانی موت
ہم نے رشتوں کو واٹس ایپ کے اسٹیٹس، انسٹاگرام کی اسٹوریز، اور لائک شیئر کلچر تک محدود کر دیا ہے۔ دلوں کی خبر اب کسی کو نہیں۔ اور جب کوئی آواز خاموش ہو جائے، تب ہمیں اُس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، وہ بھی صرف اس لیے کہ بدبو نے یاد دہانی کرا دی۔
اللہ کی رحمت اور انسانی معافی
یقیناً اللہ کی معافی اور انسان کی معافی کا کوئی تقابل نہیں۔ وہ رب جس کی رحمت ہر شے پر چھا گئی ہے، وہ نہ غصے میں ہے، نہ انا میں، نہ انتقام میں۔ لیکن ہم؟ ہم اپنی چھوٹی سی انا کی بنیاد پر زندگی کے فیصلے بھی سناتے ہیں، اور مرنے کے بعد بھی معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
دو رنگی معاشرہ
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم کس اصول پر فیصلہ کرتے ہیں، خود ہمیں بھی معلوم نہیں۔ اگر مذہب کی بنیاد پر بول رہے ہو، تو یاد رکھو کہ معافی اللہ کا وصف ہے، انا نہیں۔ اور اگر لبرل سوچ رکھتے ہو، تو پھر ہر شخص کو اپنی زندگی کے فیصلے کا حق دینا ہو گا مرنے کے بعد بھی۔
انسانیت کی قدر
شاید سب سے گہرا سوال یہ ہے کہ ہم نے انسان کی قدر کا پیمانہ کب صرف ’’خبر‘‘ بننے سے مشروط کر دیا؟ آج کوئی اس وقت تک اہم نہیں سمجھا جاتا جب تک اس کا دکھ کسی نیوز ہیڈلائن، ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ، یا جذباتی پوسٹ میں نہ بدل جائے۔
تنہائی کی حقیقت
خبر بنتے ہی سوشل میڈیا پر ’’RIP‘‘ کا طوفان آیا، تصویریں شیئر ہوئیں، تبصرے لکھے گئے، اور شام تک سب بھول گئے۔ ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جہاں کسی کی زندگی کی اصل تکلیف اُس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ خبر نہ بن جائے۔
زندگی کی ترجیحات
ہمیں اپنے معیارِ تعلق، اپنی حساسیت، اور اپنی اجتماعی ترجیحات پر غور کرنا ہوگا۔ رشتوں کی بحالی، انسان کی عزت، اور سماج کی ساخت تبھی بچ سکتی ہے جب ہم ’’زندہ لوگوں‘‘ کو سننا سیکھیں جب ہم دروازہ خبر بننے سے پہلے کھٹکھٹائیں۔
نتیجہ
سچ یہ ہے مرنے والوں کی تنہائی ہمیں اُس وقت تک نہیں دکھتی جب تک وہ لاش نہ بن جائیں۔ اور جینے والوں کی تنہائی ہمیں شاید کبھی نہ دکھے۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں