پاکستانی طلباء ہائی نان میں بین الثقافتی تبادلے کے فروغ اور طبی خدمات کی فراہمی میں سرگرم

صوبہ ہائی نان کا دورہ
ہائیکو (شِنہوا) ہائی نان میڈیکل یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ایجوکیشن کالج کی چینی اور بین الاقوامی طلباء پر مشتمل رضاکار ٹیم نے 5 سے 11 جولائی تک چین کے جنوبی صوبہ ہائی نان کے شہر وان نِنگ کا دورہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: 30 سال بعد بچھڑے ہوئے بیٹے کی گھر واپسی، لیکن کچھ ہی روز میں ایسا انکشاف کہ پورے گھر میں خوف کی لہر دوڑ گئی
بین الاقوامی طلباء کی شمولیت
اس رضاکار ٹیم میں شامل بین الاقوامی طلباء کا تعلق پاکستان، انڈونیشیا اور گھانا جیسے ممالک سے تھا۔ ٹیم نے وان نِنگ کے دیہی علاقوں اور قصبوں کا دورہ کیا جہاں انہوں نے چینی ثقافت، خاص طور پر لی قومیت کی اقلیتی ثقافت، مقامی مارشل آرٹس کا مشاہدہ اور ’’پور اوور‘‘ کافی بنانے کے طریقے سیکھے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈھاکہ یونیورسٹی میں علامہ اقبال کا یوم ولادت جوش و خروش سے منایا گیا
طبی خدمات اور تجربات
ٹیم کے تمام ارکان علاج معالجہ کے طلباء تھے۔ ان دنوں میں وہ مریضوں کو خدمات فراہم کرنے کے لیے مقامی ہسپتال گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈاکٹروں سے تبادلۂ خیال کیا تاکہ اپنے اپنے ممالک میں بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے طریقوں کے فرق کو سمجھا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکیہ: ازمیر کے جنگلات میں لگی آگ بے قابو، سیکڑوں افراد انخلاء پر مجبور، ایئرپورٹ بند
ماحین خالد کا تجربہ
پاکستان سے تعلق رکھنے والی ماحین خالد کا چینی نام شی وانگ ہے جس کا انگریزی میں مطلب "امید" ہے۔ انہوں نے اس تجربے کے حوالے سے اپنے احساسات ڈائری میں قلم بند کیے۔ انہوں نے لکھا کہ "مجھے وان نِنگ کے ہسپتال میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ یہ ایک آنکھیں کھول دینے والا بھرپور تجربہ تھا۔ میں نے بنیادی تشخیص میں مدد کی اور مختلف شعبوں میں عملے کی مدد کی۔ مختلف علاقوں میں جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ہر کام کس قدر منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور طبی عملہ کس قدر پرعزم ہے۔ اس تجربے نے مجھے اس شہر کا ایک نیا رُخ دکھایا جو اس کی انسانیت اور دیکھ بھال پر مبنی تھا۔"
یہ بھی پڑھیں: شہریوں سے بھتہ لینا پولیس افسران کو مہنگا پڑگیا
انسداد منشیات کی مہم
اس عرصہ میں ٹیم نے انسداد منشیات تعلیم اور آگاہی مہم میں بھی حصہ لیا جس کا مقصد معذوری کے شکار افراد میں منشیات کے خلاف شعور بیدار کرنا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے ایک سمر سکول میں اپنے اپنے ممالک کی کلاسیکی کتابیں بچوں کو پیش کیں اور انہیں کہانیاں سنائیں۔
یہ بھی پڑھیں: بی پی ایل افتتاحی تقریب، راحت فتح کو پرفارمنس پر کتنی رقم ملے گی؟
بین الثقافتی مکالمہ
پاکستان سے تعلق رکھنے والے شبیر محمد انس نے کہا کہ "بچوں کی کتابیں ہمارے درمیان بین الثقافتی مکالمے کا پُل بن سکتی ہیں۔ یہ انتہائی بامعنی بات ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کرنے والے میاں بیوی گرفتار
آکاش قدر کی رائے
آکاش قدر کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ وہ اور محمد انسداد منشیات سرگرمی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ قدر نے کہا کہ "میں نے اس سرگرمی کے ذریعے مختلف اقسام کی منشیات کے خطرات کے بارے میں سیکھا۔ میں اب دوسروں کو شعور دینے اور نشے کے شکار افراد کی مدد کرنے کے لیے مزید پرجوش ہوں تاکہ ہم ایک محفوظ معاشرہ قائم کرسکیں۔"
چینی حکومت کی عوامی دیکھ بھال
محمد نے کہا کہ "چینی حکومت کی عوامی دیکھ بھال سے میں انتہائی متاثر ہوا ہوں۔ میں اس بات پر بہت متاثر ہوا کہ اس سے پہلے اتنے چھوٹے قصبے میں اس طرح کی سرگرمی کبھی نہیں دیکھی۔ میں چینی حکومت کے اس اقدام کو سراہتا ہوں۔"