نسلی باغیوں کا فوجی اڈے پر حملہ، میانمار کے سیکڑوں فوجی اور شہری تھائی لینڈ فرار

میانمار کی خانہ جنگی
ینگون (ڈیلی پاکستان آن لائن) - میانمار میں جاری خانہ جنگی کے دوران ایک فوجی اڈے پر نسلی باغیوں کے حملے کے بعد 500 سے زائد شہری اور فوجی تھائی لینڈ میں داخل ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کا آئینی ترامیم کیخلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا عندیہ
حملے کی تفصیلات
ڈان نیوز نے تھائی فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ میانمار 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد سے خانہ جنگی کا شکار ہے، جہاں فوج کو نسلی مسلح گروہوں اور جمہوریت نواز مزاحمتی قوتوں کے اتحاد کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کو میانمار کی ریاست کاین میں کرن نیشنل لبریشن آرمی (کے این ایل اے) نے ایک فوجی اڈے پر سہ پہر 3 بجے کے قریب حملہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل کے باقی میچز بنگلہ دیش منتقل کرنے کی تجویز آ گئی
تھائی فوج کا ردعمل
تھائی فوج کے بیان کے مطابق، حملے کے بعد 100 میانماری فوجی اور 467 شہری تھائی لینڈ میں داخل ہو گئے، جنہیں تھائی فوج اور پولیس نے غیر مسلح کر کے ابتدائی طبی امداد اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سہولتیں فراہم کیں۔
کے این ایل اے کے سیاسی ونگ کے رہنما سا تھامین تون نے سرحد کے قریب جھڑپ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ باغی فورسز نے فوج سے ’کچھ اگلے مورچے‘ چھین لیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صبا فیصل کی بڑی بہو سے پھر لڑائی، سوشل میڈیا پر لفظی تکرار
بڑھتی ہوئی نقل مکانی
میانمار کی خانہ جنگی کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس وقت تھائی لینڈ میں میانمار سے آنے والے 81 ہزار کے قریب پناہ گزین اور پناہ کے متلاشی افراد موجود ہیں۔
فضائی حملے کے نتیجے میں ہلاکتیں
ادھر مرکزی میانمار کے علاقے ساگائنگ میں ایک بدھ مت خانقاہ پر فضائی حملے کے نتیجے میں کم از کم 20 شہری ہلاک ہو گئے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ یہ واقعہ جمعہ کی شب ایک بجے لِن تا لو نامی گاؤں میں پیش آیا، جہاں بے گھر افراد ایک خانقاہ میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
فوج مخالف ایک مزاحمتی کارکن نے بتایا کہ حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 3 بچے بھی شامل ہیں، جبکہ 2 زخمی افراد شدید حالت میں ہسپتال منتقل کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں لگا تھا کہ بدھ خانقاہ محفوظ جگہ ہے، لیکن پھر بھی انہیں نشانہ بنایا گیا‘۔ فوجی حکومت کے ترجمان زاؤ مِن تون نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے ردعمل کے لیے بھیجے گئے سوالات کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔