لورالائی واقعے میں مردہ تصور کیا جانے والا ڈیرہ غازی خان کا نوجوان زندہ نکلا

مشتبہ واقعہ کی تفصیلات
ڈیرہ غازی خان (ڈیلی پاکستان آن لائن) بلوچستان کے علاقے لورالائی کے قریب مسافروں کو بس سے اتار کر شہید کرنے کے افسوس ناک واقعے میں مردہ قرار دیا گیا شہری زندہ نکلا۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی کا وفاقی بجٹ 26-2025 کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ
عرفان کی شناخت
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس شخص کی شناخت ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے عرفان کے طور پر ہوئی ہے، جسے لاشوں کی شناخت میں غلطی کی وجہ سے مردہ سمجھ لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ماضی میں ٹوتھ برش بیچنے والا، اب 13 ہزار کروڑ کا مالک: کیا شاہ رخ سے بھی امیر ہے؟
واقعے کی تفصیلات
کمانڈنٹ بارڈر ملٹری پولیس ڈیرہ غازی خان، اسد چانڈیا نے بتایا کہ عرفان ان 12 مسافروں میں شامل تھا، جنہیں مسلح حملہ آوروں نے زبردستی بس سے اتار لیا تھا، تاہم عرفان وہاں سے بحفاظت بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
پناہ گزینی کی کہانی
کمانڈنٹ نے بتایا کہ جان بچانے کے بعد عرفان دوبارہ مسافر کوچ پر واپس نہیں آیا، بلکہ ایک متبادل گاڑی کے ذریعے اپنے آبائی گاؤں، واستی بوزدار، تحصیل تونسہ شریف پہنچا، ان کے اہل خانہ کے مطابق اس وقت وہ شدید صدمے کی حالت میں ہے۔
ریسکیو 1122 کے ملازم کاشف نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ عرفان نے اپنا موبائل فون اور شناختی کارڈ چھپا کر اپنی جان بچائی۔
یہ بھی پڑھیں: ویمنز ورلڈ کپ، پاکستان کی ٹیم بھارت نہیں جائے گی، محسن نقوی کا دو ٹوک اعلان
لاشوں کی شناخت کی غلطی
لاشوں کی بازیابی کے دوران اس کی فہرست میں عدم موجودگی کی وجہ سے حکام نے غلطی سے ایک اور مقتول شیخ ماجد کی لاش کو عرفان کی لاش سمجھ لیا تھا۔ یہ غلط فہمی اس وقت دور ہوئی، جب مقامی انتظامیہ نے عرفان بوزدار کے خاندان سے لاش کی شناخت کے لیے رابطہ کیا، اور انہوں نے تصدیق کی کہ عرفان خیریت سے گھر واپس آ چکا ہے، لیکن اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں کلین اپ آپریشن مکمل، آلائشیں اٹھانے کا نیا ریکارڈ بن گیا ،وزیر اعلیٰ کی اداروں کو شاباش،ملازمین کو 10 ہزار روپے انعام
حملے کی ذمہ داری
لورالائی حملے کی مبینہ طور پر ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر عائد کی گئی ہے، جس میں 9 مسافر جاں بحق ہوئے تھے، اس واقعے کی ملک بھر میں شدید مذمت کی گئی اور خطے میں مسافروں کی سلامتی پر تشویش پیدا ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیریئر کے آغاز میں اداکار فون کرواکر مجھے ڈرامے سے نکلواتے تھے، دانش تیمور
معاشرتی تحفظ کے سوالات
ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر عثمان خالد نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ عوامی ٹرانسپورٹ کو رات کے وقت بلوچستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے، تاہم، دن دیہاڑے ہونے والے حالیہ جان لیوا حملے نے ان مسافروں کی حفاظت کے حوالے سے سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جو رات کے بجائے دن کے وقت سفر کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
ماضی کے واقعات
دسمبر 2023 میں ڈیرہ غازی خان کو وزیرستان سے 6 حجاموں اور جنوری 2024 میں بلوچستان سے 3 افراد کی لاشیں موصول ہوئی تھیں۔ 6 حجاموں کے ورثا کو حکومت کی طرف سے معاوضہ مل چکا ہے، لیکن 3 ٹرک ڈرائیوروں (احمد رشید زُہرانی) اور دو بھائیوں (سید علی حیدر اور سید کُمیل حیدر) کے اہل خانہ کو تاحال مالی امداد نہیں ملی، حالانکہ ڈی جی خان کی ضلعی حکومت نے اس کے لیے صوبائی حکومت کو باضابطہ طور پر درخواست بھی دی تھی۔