واپڈا میں مستقل افسران کی غیر موجودگی، ادارہ انتظامی بحران اور بیوروکریسی کی رکاوٹوں کا شکار

انتظامی بحران کا سامنا
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) ملک کا سب سے بڑا سرکاری ادارہ واپڈا اس وقت مستقل افسران کی غیر موجودگی کے باعث شدید انتظامی بحران کا شکار ہے، اہم عہدے نو ماہ سے خالی ہیں، جب کہ بڑے ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار ہو چکے ہیں اور ادارہ صرف ’نگرانی‘ کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی دھمکیوں کے جواب میں حکومت اور پی ٹی آئی ایک صفحے پر آگئی
بڑھا ہوا بیوروکریٹک رکاوٹ
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق، واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)، جو کہ ملک کے سب سے بڑے سرکاری اداروں میں سے ایک ہے اور جس کا مالیاتی حجم تقریباً 70 ارب ڈالر ہے، اس وقت اہم فیصلہ ساز افسران کی غیر موجودگی کے باعث سنگین بیوروکریٹک رکاوٹوں کا شکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عماد کے بعد عامر نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا
خالی عہدے اور ان کا اثر
واپڈا کی گورننگ باڈی کے دو اہم عہدے گزشتہ نو ماہ سے خالی ہیں، جس کے باعث ادارے کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ یہ انتظامی مفلوجی اس لیے بھی تشویش ناک ہے کہ واپڈا اس وقت ملک کی تاریخ کے تین بڑے بجلی منصوبوں دیامر بھاشا، داسو اور مہمند ڈیم پر کام کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں اندھیرے چھا گئے۔۔۔۔ 70 فیصد بجلی کے گرڈز کو ناکارہ کر دیا گیا
نظام برقرار رکھنے کی کوششیں
اس کے علاوہ، واپڈا عملی طور پر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے آپریشنل نظام کو بھی سنبھالتا ہے، جو وفاقی اکائیوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور زرعی نظام کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
قانونی تنازعات اور کمیٹیاں
تاہم، ستم ظریفی یہ ہے کہ خود ارسا بھی اس وقت بورڈ کی تشکیل کے حوالے سے قانونی تنازعات کا شکار ہے، جہاں سندھ سے مستقل رکن کی تقرری تنازع کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے موساد کے لیے جاسوسی کے الزام میں ایک شخص کو پھانسی دے دی
نگرانی کی صورت حال
واپڈا ایکٹ کے تحت، گورننگ باڈی میں تین مستقل ارکان پانی، بجلی اور مالیات اور ایک مستقل چیئرمین شامل ہوتا ہے، جو ہر سال سینکڑوں ارب روپے کے فنڈز کی نگرانی کرتا ہے۔ فی الحال، یہ باڈی پانی اور بجلی کے مستقل ارکان کے بغیر کام کر رہی ہے اور ان عہدوں کی ذمہ داریاں دو سینئر افسران، سید علی اختر شاہ (پانی) اور محمد عرفان (بجلی)، کو ’نگرانی‘ کے طور پر سونپی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: محرم الحرام میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر فوج تعینات کرنے کا فیصلہ
نگرانی کی حدود
نگرانی کا مطلب:’نگرانی‘ کے عہدے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ افسر کسی قسم کے مالی یا انتظامی فیصلے نہیں کر سکتا بالکل عبوری حکومت کی طرز پر۔
یہ بھی پڑھیں: عشق و محبت کا بھوت تھا جو بغیر ایک دوسرے کو دیکھے ہم دونوں پر سوار ہو کررہا، یہ ایک طرح سے روحانی تعلق تھا جو حقیقی محبت کے روپ میں ڈھل گیا
مستعفی اور اضافی چارج
جون میں جب سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی نے استعفیٰ دیا تو واحد مستقل رکن نوید اصغر چوہدری کو اضافی طور پر چیئرمین کی ذمہ داری بھی دے دی گئی۔ نوید اصغر چوہدری بنیادی طور پر مالیات کے رکن ہیں اور اس عہدے پر مستقل تقرری رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترامیم کے معاملےپر پارٹی کا ساتھ نہ دینے والوں کو ایک موقع دیا جائے گا، زرتاج گل
تنقید اور بھرتی کی صورتحال
واپڈا کے سابق ڈائریکٹر جنرل برائے انسانی وسائل کے مطابق یہ ایک انتظامی بدنظمی ہے، جس کی قومی سطح پر بھاری قیمت ادا کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت واپڈا اپنی کوئورم کی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے، جو کسی بھی فیصلے کے لیے قانونی طور پر ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئی پاگل شخص ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ 24 کروڑ سے زائد لوگوں کا پانی روک سکتا ہے، اگر انڈیا نے دریائے سندھ کا پانی روکا تو نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر
وزارت کی خاموشی
روزنامہ ڈان نے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹو سے اس حوالے سے دو ہفتوں کے دوران متعدد بار رابطے کی کوشش کی، لیکن وزیر اور ان کے ترجمان نے واپڈا کی گورننگ باڈی کی تشکیل سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک کے متعدد شہروں میں زلزلے کے جھٹکے
پیشگی اطلاعات اور اشتہار
ادھر، سابقہ ارکان کو زبانی ہدایت پر اپنے عہدوں پر کام جاری رکھنے کو کہا گیا، جو 13 مارچ 2025 تک جاری رہا۔ بعد ازاں، وزارت کی جانب سے مدتِ ملازمت کی بابت استفسار کے بعد وہ مستعفی ہو گئے، اس کے بعد واپڈا نے دونوں خالی عہدوں کا ’نگرانی‘ چارج سینئر افسران کو دے دیا۔
وفاقی حکومت کی طرف سے ذمے داری
وزارتِ آبی وسائل نے تاخیر کا الزام وزیراعظم آفس پر ڈال دیا، ایک وزارت کے اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افسران کی بھرتی کے لیے سلیکشن بورڈز تشکیل دے کر وزیراعظم آفس کو بھیجے گئے، لیکن وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔