موسمی عذاب کا اندازہ یوں لگالیں کہ انگریز فوجی ہی صحرائی علاقے سے گزرتے تو مسلسل پسینے کے اخراج سے بے ہوش ہو جاتے بعض ہلاک ہو جاتے۔

موسمی حالات کا جائزہ
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 187
سبی کے علاقے میں دونوں موسم اپنی انتہاؤں کو چھوتے تھے۔ ایک طرف تو گرمیوں میں سورج سوا نیزے پر اْتر آتا تھا تو دوسری انتہا پر اتنی ٹھنڈ کہ پانی بھی جم جاتا تھا۔ گرمیوں میں تو زوال سے قبل ہی درجہ ئحرارت اپنے عروج یعنی پچاس باون ڈگری تک پہنچ جاتا تھا۔ دوسری طرف موسم سَرما میں بعض اوقات تھرما میٹر کا پارہ گر کر منفی ہندسوں میں بھی چلا جاتا تھا۔ پہلے مرحلے پر کام کے آغاز کے لیے اکتوبر کا مہینہ شاید اسی لیے چنا گیا تھا کہ ان دنوں میں یہاں کا موسم اتنا گرم یا سرد نہیں، بلکہ معتدل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی میں پانی کی پائپ لائن پھٹ گئی
کام کے ابتدائی مراحل
جب کام کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تو وہ موسم سَرما کے دن تھے اس لیے موسم کی سختی کا زیادہ احساس نہ ہوا، تاہم جیسے ہی گرمیاں آئیں تو سورج کی تپش اور حدت انتہا درجہ پر پہنچ گئی تھی۔ اس کے اثرات وہاں کام کرنے والے مزدوروں اور کاریگروں کی صحت پر بھی پڑنے لگے۔ پھراس جان لیوا موسم میں یہاں ایک اور مصیبت مچھروں کی شکل میں نمودار ہوئی اور سیکڑوں مزدور ملیریا اور ٹائیفائڈ میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار گئے۔
یہ بھی پڑھیں: فیصل آباد میں ڈاکوؤں نے ایک اور ڈلیوری بوائے سے پیزا چھین لیا
انگریز فوجیوں کا تجربہ
اس موسمی عذاب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعد ازاں جب اس لائن پر گاڑیوں کی باقاعدہ آمدو رفت شروع ہوئی تو مسافروں میں زیادہ تر انگریز فوجی ہی ہوتے تھے۔ انھوں نے اتنی گرمی بھلا کاہے کو دیکھی ہو گی۔ وہ جب حدت سے دہکتے ہوئے اس صحرائی علاقے میں سے گزرتے تو اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مسلسل پسینے کے اخراج کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی واقع ہو جاتی اور وہ بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ کی اموات بھی ہو جاتی تھیں۔ ایسے ہی ایک حادثے میں شدید گرمی کی وجہ سے ریل گاڑی میں سفر کرنے والے 30 انگریز فوجی گرمی اور لو لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کے بعد ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے اور گاڑی کے ڈبوں میں برف کے سلیں رکھ کر گرمی کا توڑ تلاش کیا گیا۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ وہ بلا وجہ ڈبوں کے دروازے اور کھڑکیاں نہ کھولیں اور ان کو پردوں سے ڈھانپے رکھیں۔ ان کو ٹھنڈے پانی کی مسلسل فراہمی کا بندوبست بھی کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کتنے امریکی اراکین کانگریس پاکستان کا دورہ کریں گے۔۔۔؟ذرائع نے تعداد بتا دی
وادی بولان کا چیلنج
غرض سبی سے آگے لائن پر کام کا آغاز ہوا۔ آس پاس کچھ دور تک تو کھیتی باڑی اور باغات کی وجہ سے ہریالی نظر آتی ہے۔ تاہم بعد میں بلوچستان کا سب سے مشکل ترین راستہ شروع ہو جاتا تھا جو وادیِ بولان کہلاتا ہے- لائن کے اس حصے میں تعمیر آگے چل کر محکمہ ریلوے کے لیے ایک بہت بڑا درد سر بننے والی تھی۔
اردو اشعار
باب 8: وادیِ بولان سبی تا کوئٹہ
وادیِ بولان
بچھڑے ہوئے ساتھی نہ ملے پھر
آتے جاتے موسم بھی ناکام رہے
دل کا راہگْزر ہے سْونا، آس تھکی ہے
وہ عالم ہیجان بلب بولان ہو جیسے
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔