مصر کی شاندار ترقی کے قصے،پاکستان کی فخر و طاقت کے ساتھ

معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 20
مصری مہمان نوازی
یہ بھی پڑھیں: بیٹے پر جادو ٹونے کا الزام، گینگ لیڈر کے ہاتھوں بزرگوں کا قتلِ عام، 184 افراد ہلاک
اذان کا وقت
مغرب کی اذانوں کے ساتھ ہی میری آنکھ کھلی، جو قاہرہ کی تمام مسجدوں سے بلند ہوئی تھیں اور پھر اچانک ختم ہوگئیں۔ پاکستان کی طرح، یہاں بھی آدھا گھنٹہ تک اذانیں نہیں ہوتی رہتیں، جبکہ دیگر اسلامی ممالک میں یہی صورتحال پائی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہڑتال اور دھرنا شوق سے کریں لیکن عوامی مفاد پر سمجھوتا نہیں ہوگا: وزیر اعلیٰ بلوچستان
راویہ کی دعوت
یہ یاد آتے ہی مجھے احساس ہوا کہ آج رات مجھے راویہ نے کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا ہوا ہے۔ راویہ ایک خوش اخلاق اور محبت کرنے والی مصری خاتون ہیں، اور وہ اس وقت قاہرہ میں تعطیلات پر ہیں۔ انہوں نے میری رہائش کا اہتمام قصر نیل کے قریب ایک خوبصورت ہوٹل میں کیا تھا، اور مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اراکین قومی اسمبلی پارلیمنٹ لاجز کی تزئین وآرائش اور مرمت نہ ہونے پرپھٹ پڑے
راستے کی کہانی
عشاء کی اذان سے پہلے، ان کی بھیجی ہوئی گاڑی مجھے لینے آئی۔ ڈرائیور خاموش تھا، شاید اسے انگریزی نہیں آتی تھی، اس لئے ہم خاموش بیٹھے رہے۔ تقریبا 20 منٹ کا سفر طے کرنے کے بعد، میں راویہ کے گھر پہنچا جہاں وہ، ان کے شوہر اور دونوں بچے مجھے خوش آمدید کہنے کے لئے کھڑے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں تعلیمی ادارے کب تک بند رہیں گے؟ وزیر تعلیم کا بیان آ گیا
قاہرہ کا طرز زندگی
قاہرہ دنیا کے چند بڑے اور گنجان آباد شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں کراچی کی طرح کا فلیٹ سسٹم ہے، جہاں فردی گھر بنانا ایک کروڑ پتی کی خواہش ہوتی ہے، کیونکہ شہر میں ہر کوئی مرکزی یا کاروباری علاقے میں رہائش حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح شہر کو پھیلانے کے بجائے اوپر کی طرف بڑھایا گیا، جس کی وجہ سے یہاں کثیر المنزلہ عمارتیں نظر آتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ مریم نواز سے پاکستان نیول وار کالج کے 118 رکنی وفد کی ملاقات، 16 دوست ممالک کے آفیسرز بھی شامل
دعوت کا ماحول
میری توقعات کے برعکس، دعوت ایک معمول کی تقریب نہیں تھی، بلکہ انہوں نے بڑے پیمانے پر کھانے کا انتظام کیا تھا اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی مدعو کیا تھا۔ سب نے دیکھا کہ میں آیا ہوں تو خوشی کا اظہار کیا، کچھ خواتین نے روایتی طریقے سے خیر مقدمی نعرے بھی لگائے۔
یہ بھی پڑھیں: اصل میں اختیار کس کا ہے۔۔۔
تبادلہ خیال
ہم نے وہاں بیٹھ کر کھانا کھایا اور بہت دلچسپ گفتگو کی۔ وہ لوگ پڑھے لکھے تھے اور گزارے لائق انگریزی بول رہے تھے، تاہم وہ میری بہتر انگریزی سے متاثر تھے۔ انہوں نے مجھے مصر کی ترقی کے بارے میں بتایا اور میں نے اپنے ملک کی کامیابیوں کی بات کی۔ اُس وقت تک پاکستان نے ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا، لیکن وہ پاکستان کی ترقی اور خاص طور پر اس کی فوجی قوت سے متاثر تھے، جیسے یہ سب مسلمانوں کا مشترکہ سرمائے کا حصہ تھا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔