سبی اور کوئٹہ کے درمیان ایک چھوٹا سا قصبہ جس کا نام “آب گم” ہے

مصنف کا تعارف

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 188

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب نے برطانیہ کے ہیتھرو ایئر پورٹ کا بڑا حصہ خرید لیا

سبی سے کوئٹہ تک کا راستہ

سبی سے آگے اس لائن کا کوئٹہ تک کا راستہ پچھلے سیکشن سے نصف یعنی کل 111 کلو میٹر تھا، تاہم یہ بہت ہی دشوار گزار اور خطرناک ترین پہاڑی سلسلوں میں سے گزرتا تھا۔ اس کے لیے جگہ جگہ پہاڑیوں کو کاٹ کر پٹریاں بچھانے کے راستے نکالنے تھے، جا بجا درجنوں کے حساب سے سرنگیں کھودی جانا تھیں، اور بیسیوں مقامات پر برساتی نالوں اور چھوٹے بڑے دریاؤں پر پل بھی بنائے جانے تھے۔ اس دوران ریل کی پٹری کی زیادہ تر تعمیر دریائے بولان کے مستقل پاٹ اور اس کے آس پاس ہی ہو رہی تھی جو قدرے ہموار راستہ تھا اور اسے پٹری بچھانے کے لیے مناسب خیال کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم نے بجٹ سے متعلق تحفظات حکومتی وفد کے سامنے رکھ دیئے، جلد وزیر اعظم سے ملاقات متوقع

منصوبے کی تفصیلات

سروے کے مطابق اس منصوبے میں سبی سے کوئٹہ تک 18 کے قریب چھوٹی بڑی سرنگیں شامل تھیں، اور کوئٹہ سے چمن لائن پر خواجہ آمران کے پہاڑی سلسلے میں دنیا کی اس وقت تک کی سب سے طویل اور مشہور زمانہ ریلوے سرنگ کھوجک ٹنل کے علاوہ تین اور سرنگوں کی تعمیر بھی شامل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: شیر افضل مروت کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا

چڑھائی کا چیلنج

سبی اور کوئٹہ کے درمیان "آبِ گم" نامی ایک مقام سے آگے مسلسل چڑھائی شروع ہو جاتی ہے جو کوئٹہ سے کچھ ہی پہلے "کولپور" کے مقام پر ختم ہوتی تھی۔ ان پہاڑیوں پر ریل گاڑی کا چڑھنا قدرے مشکل تھا اور خدا نخواستہ اگر گاڑی اوپر نہ چڑھ پاتی تو وہ دوبارہ پیچھے کی طرف لڑھکنے لگتی اور بے قابو ہو کر کسی سنگین اور خوفناک حادثے کا سبب بنتی۔ اسی طرح مخالف سمت سے اترتی ہوئی ریل گاڑی اگر اپنا کنٹرول کھو بیٹھتی تو یہ بھی ایک خطرناک صورت حال بن جاتی۔

یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل جنگ: ائیر انڈیا سمیت کئی ممالک کے 33 مسافر طیارے ‘وار زون’ میں پھنس گئے

مشکلات کا آغاز

سبی سے باہر نکلتے ہی خشک دریا پر ایک بڑا ناری پل آتا ہے۔ یہاں تک تو پٹری بچھانے کا کام بہت یکسوئی اور آسانی سے چلتا رہا، لیکن مشکاف کا پہاڑی سلسلہ شروع ہوتے ہی زمینی حقائق یکسر بدل گئے اور مختلف نوعیت کی مشکلات کی وجہ سے کام کی رفتار قدرے دھیمی پڑنے لگی۔ یہ منصوبہ سازوں کے لیے ایک تشویش کی بات تھی لیکن اس پلان کو آگے بڑھانا تھا، اس لیے کام جاری رہا، اگرچہ اس کی رفتار اب قدرے سست ہو گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: فلم میں زیادتی کا سین شوٹ کیا گیا تو مجھے ۔۔ بالی ووڈ اداکارہ کا حیران کن انکشاف

آبِ گم کا مقام

سبی اور کوئٹہ کے عین وسط میں ایک چھوٹا سا قصبہ آتا ہے جس کا نام "آب گم" ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں قریب ہی کہیں پانی کا ایک چشمہ بہتا تھا جو آگے جا کر پہاڑی سے نیچے گرتا تھا، لیکن اس کے بعد وہ نظر ہی نہیں آتا تھا اور وہیں کہیں گم ہو جاتا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام "آب گم" رکھ دیا گیا، جو فارسی میں غائب ہو جانے والا پانی کے معنی میں ہے۔

ریلوے لائن کا گریڈینٹ

جب ریل کی پٹری یہاں تک پہنچی تو مسلسل مشکلات کا ایک دور شروع ہو گیا۔ آب گم سے لائن کو بتدریج بلندی پر لے جانا تھا۔ سبی ریلوے اسٹیشن کی بلندی صرف 435 فٹ، آب گم کی 2157 فٹ، اور کوئٹہ سے کچھ پہلے کا سب سے بلند ریلوے اسٹیشن کولپور 5874 فٹ اونچا تھا۔ یعنی آب گم سے آگے ریل کی پٹری کو مزید 3717 فٹ بلندی پر لے جانا تھا، جس کو ریلوے کی زبان میں گریڈینٹ کہتے ہیں، اور اس تک پہنچنے کے لیے پٹری کو ایک فارمولے کے تحت بتدریج بلند ہوتے جانا تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...