بجٹ جتنا پوشیدہ‘ کنفیوز اور غیر واضح ہو گا، اتنا ہی عوام کو اس کی بنیاد پر نچوڑا جا سکے گا: خالد مسعود خان

معروف کالم نویس کی رائے
لاہور (ویب ڈیسک) معروف کالم نویس خالد مسعود خان نے لکھا ہے کہ " بجٹ جتنا پوشیدہ، کنفیوز اور غیر واضح ہو گا اتنا ہی عوام کو اس کی بنیاد پر نچوڑا جا سکے گا، واقعتاً غریب آدمی کا بجٹ ہوتا ہے کیونکہ ٹیکس کا سارا بوجھ اسی غریب کے کندھوں پر لادا جاتا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دہلی میں رہائشی عمارت زمین بوس ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد ہلاک
بجٹ کی نوعیت
روزنامہ دنیا میں چھپنے والے اپنے کالم میں ان کا کہنا تھا کہ مملکت خداداد پاکستان کا کوئی بھی بجٹ کبھی بھی سمجھ نہیں آیا اور اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ بجٹ جیسی محیر العقول دستاویز جن لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے، وہ بھی سمجھانے کے بجائے قوم کو مزید کنفیوز اور پریشان کرتے ہیں کہ یہ جھوٹ کا پلندہ حقیقت میں ان کو بھی سمجھ نہیں آتا۔
یہ بھی پڑھیں: بولیویا: مسلح گروپ نے بیرکوں پر حملہ کرکے 200 فوجیوں کو اغوا کرلیا
غریب آدمی پر بوجھ
بجٹ جتنا پوشیدہ، کنفیوز اور غیر واضح ہو گا اتنا ہی عوام کو اس کی بنیاد پر نچوڑا جا سکے گا۔ اندھیرے میں سر پر پڑنے والے ڈنڈے کا نہ تو پتہ چلتا ہے کہ کس نے مارا ہے اور نہ ہی یہ علم ہوتا ہے کہ کیوں مارا گیا ہے۔ یہی حال بجٹ کا ہے کہ کسی طبقے کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران پر بمباری سے امن نہیں آئے گا” روس کھل کر میدان میں آگیا
گاڑیوں کی قیمتوں کا فرق
اب گاڑی کا نام کیا لکھوں، گاڑی غریب آدمی کی تو نہیں ہوتی۔ لگژری گاڑیوں کی قیمت میں sixty لاکھ روپے تک کمی کی گئی ہے۔ جبکہ کم آمدنی والے کو مزید ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: معروف موسیقار طافو خان طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے
استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد
گاڑیوں کی بات چلی ہے تو آئندہ سال سے ملک میں درآمد کی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں پر ٹیکسوں اور ڈیوٹی کی مد میں تدریجی کمی کی جائے گی۔ یہ مشورہ کس عقلمند نے دیا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر دی جائے، یہ سوال اپنی جگہ پر ہے۔
قومی معیشت پر اثرات
ایک ایک ارب ڈالر کے لیے دنیا بھر میں کشکول لے کر پھرنے والوں کا آمدنی اور خرچ کا باہمی فرق اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ اسے پورا کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد سے صرف گاڑیوں کی خرید کے سلسلے میں زرِمبادلہ خرچ نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے درآمد کیے جانے والے پٹرول اور ڈیزل کا خرچہ بھی دُگنا ہو جائے گا۔