بجٹ جتنا پوشیدہ‘ کنفیوز اور غیر واضح ہو گا، اتنا ہی عوام کو اس کی بنیاد پر نچوڑا جا سکے گا: خالد مسعود خان
معروف کالم نویس کی رائے
لاہور (ویب ڈیسک) معروف کالم نویس خالد مسعود خان نے لکھا ہے کہ " بجٹ جتنا پوشیدہ، کنفیوز اور غیر واضح ہو گا اتنا ہی عوام کو اس کی بنیاد پر نچوڑا جا سکے گا، واقعتاً غریب آدمی کا بجٹ ہوتا ہے کیونکہ ٹیکس کا سارا بوجھ اسی غریب کے کندھوں پر لادا جاتا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں: حمیرا اصغر کی لاش 6 ماہ سے زیادہ پرانی لگتی ہے، ایس ایس پی ساؤتھ کا انکشاف
بجٹ کی نوعیت
روزنامہ دنیا میں چھپنے والے اپنے کالم میں ان کا کہنا تھا کہ مملکت خداداد پاکستان کا کوئی بھی بجٹ کبھی بھی سمجھ نہیں آیا اور اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ بجٹ جیسی محیر العقول دستاویز جن لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے، وہ بھی سمجھانے کے بجائے قوم کو مزید کنفیوز اور پریشان کرتے ہیں کہ یہ جھوٹ کا پلندہ حقیقت میں ان کو بھی سمجھ نہیں آتا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اسٹاک میں کاروبار کا مثبت رجحان، 100 انڈیکس میں 550 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ
غریب آدمی پر بوجھ
بجٹ جتنا پوشیدہ، کنفیوز اور غیر واضح ہو گا اتنا ہی عوام کو اس کی بنیاد پر نچوڑا جا سکے گا۔ اندھیرے میں سر پر پڑنے والے ڈنڈے کا نہ تو پتہ چلتا ہے کہ کس نے مارا ہے اور نہ ہی یہ علم ہوتا ہے کہ کیوں مارا گیا ہے۔ یہی حال بجٹ کا ہے کہ کسی طبقے کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان ہاکی فیڈریشن نے 5 افراد پر تاحیات پابندی عائد کردی
گاڑیوں کی قیمتوں کا فرق
اب گاڑی کا نام کیا لکھوں، گاڑی غریب آدمی کی تو نہیں ہوتی۔ لگژری گاڑیوں کی قیمت میں sixty لاکھ روپے تک کمی کی گئی ہے۔ جبکہ کم آمدنی والے کو مزید ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیاحوں کے ساتھ دھو کہ دہی اور لوٹ مار دیکھ کر غصہ بہت آیا،فرعون کا ننھا سا تابوت جو 12پاؤنڈ کا تھا یہاں سے صرف 2پاؤنڈ میں مل گیا
استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد
گاڑیوں کی بات چلی ہے تو آئندہ سال سے ملک میں درآمد کی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں پر ٹیکسوں اور ڈیوٹی کی مد میں تدریجی کمی کی جائے گی۔ یہ مشورہ کس عقلمند نے دیا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر دی جائے، یہ سوال اپنی جگہ پر ہے۔
قومی معیشت پر اثرات
ایک ایک ارب ڈالر کے لیے دنیا بھر میں کشکول لے کر پھرنے والوں کا آمدنی اور خرچ کا باہمی فرق اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ اسے پورا کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد سے صرف گاڑیوں کی خرید کے سلسلے میں زرِمبادلہ خرچ نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے درآمد کیے جانے والے پٹرول اور ڈیزل کا خرچہ بھی دُگنا ہو جائے گا۔








