آبِ گم سے کولپور اسٹیشن تک مسلسل چڑھائی اور واپسی پر اترائی کی وجہ سے چلتی گاڑی کویکدم روکنا یا چلانا دشوار تھا، اس لیے اس سیکشن پر دوہری پٹری بچھائی گئی
مقدمہ
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 189
یہ بھی پڑھیں: شہریار آفریدی کی تھانہ سبزی منڈی کے مقدمے میں 29 اپریل تک ضمانت منظور
آب گم سے کولپور کا گریڈئینٹ
آب گم سے کولپور کا گریڈئینٹ 1:25 کا بنتا تھا یعنی ہر 100 فٹ کا فاصلہ طے کرکے پٹری کو 4 فٹ اونچا ہو جانا تھا۔ اس بلندی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جو انجن سبی کے قدرے ہموار اسٹیشن تک مال گاڑی کی پچاس یا زیادہ ویگنوں کو با آسانی کھینچ لاتا تھا، وہ چڑھائی کی وجہ سے سبی سے آب گم تک محض 14 مسافر بوگیاں ہی لا سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جہلم: تقریب میں مضر صحت کھانا کھانے سے 2 بھائی جاں بحق، مزید 6 افراد کی حالت تشویشناک
بینکر انجن کا استعمال
اس زمانے کا ایک طاقتور اسٹیم انجن 14 ڈبوں کی گاڑی کو سبی سے آب گم تک تو کسی نہ کسی طرح کھینچ ہی لاتا تھا، تاہم آگے کی چڑھائی چڑھنا اس کے بس کا بھی روگ نہیں تھا۔ لہٰذا طے پایا کہ آب گم کے اسٹیشن سے ایک اضافی انجن ریل گاڑی کے پیچھے لگایا جائے گا اور یوں دونوں مل کر ریل گاڑی کو یہاں سے آگے لے جائیں گے۔ یہ فاضل انجن "بینکر انجن" کہلاتا ہے۔ عام حالات میں تو یہ اگلی مرکزی انجن کے ساتھ چلتا ہے، تاہم کسی پہاڑی پر چڑھائی کی صورت میں یہ انجن گاڑی کو آگے دھکیلتا رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ۳۷ویں سالگرہ دبئی میں منائی گئی
چڑھائی اور اترائی کا کنٹرول
جب اگلا انجن بلندی سے نشیب کی طرف اترتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ اس کے پیچھے لگی کچھ بوگیاں یا ویگنیں ابھی چڑھائی چڑھ ہی رہی ہوتی ہیں۔ اس صورت میں، بینکر انجن پیچھے سے ان کو دھکیلتا رہتا ہے۔ اسی طرح جب واپسی پر ساری گاڑی نشیب کی طرف اْتَر رہی ہوتی ہے تو یہ بینکر انجن پیچھے سے بریک لگا کر گاڑی کی رفتار کو قابو میں رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حوالدار لالک جان شہید کی جرأت اوربہادری قوم کا فخر ہے: وزیر اعلیٰ پنجاب
بینکر انجن کی اہمیت
مال گاڑی کی نیچے اترتی ہوئی رفتار کو قابو میں رکھنے کے لیے اس کے پیچھے کچھ خالی اور اضافی ویگنیں بھی لگا دی جاتی ہیں تاکہ وہ بریک لگانے میں مددگار ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے آئینی ترمیم کا مذاق اڑایا، محمود خان اچکزئی
آج کا استعمال
بینکر انجن لگانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عام حالات میں اس علاقے یعنی آب گم میں 9 مسافر بوگیوں پر ایک بینکر انجن لگتا ہے۔ لیکن اگر ان کی تعداد 10 یا اس سے کچھ زیادہ ہو جائے تو پھر مرکزی انجن کے ساتھ 2 بینکر انجنوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بڑی اور طویل ایکسپریس گاڑیوں جیسے کہ پشاور سے کوئٹہ جانے والی جعفر ایکسپریس کو آب گم سے کولپور تک لے جانے کے لیے اس کے مرکزی انجن کے علاوہ پیچھے 2 اضافی انجن لگتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نورڈک جونیئر اوپن سکواش چیمپئن شپ: مہوش علی نے پاکستان کے لئے ٹائٹل جیت لیا
دوہری پٹری کی ضرورت
آب گم سے کولپور اسٹیشن تک جاتے ہوئے مسلسل چڑھائی اور واپسی پر اترائی کی وجہ سے چلتی ہوئی گاڑی کو ایک دم روکنا یا چلانا تھوڑا سا دشوار ہوتا ہے۔ اس لیے اس سیکشن پر دوہری پٹری بچھائی گئی ہے تاکہ مخالف سمت سے آنے والی گاڑی کو کراسنگ کروانے کے لیے کسی گاڑی کو بریک نہ لگانا پڑے۔ اگر کسی گاڑی کا حادثہ یا پٹری سے اترنے کا خدشہ ہو تو صرف ایک ہی پٹری بند ہوتی ہے، دوسری لائن کو استعمال کرتے ہوئے گاڑیاں اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔
کولپور اسٹیشن پر بینکر انجن کا ہٹانا
وادی بولان کے آخری بڑے اور سب سے بلند اسٹیشن کولپور پر یہ اضافی بینکر انجن ہٹا دیا جاتا ہے کیونکہ وہاں سے کوئٹہ تک کا راستہ قدرے ہموار ہو جاتا ہے اور گاڑی اپنے معمول کے مطابق چلتی جاتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








