آب گم کے اسٹیشن سے نکلتے ہی پٹری میں خوبصورت مگر طویل ترین لوپ آتا ہے، مسافروں کو آخری ڈبہ اور پیچھے لگا بینکر انجن بھی صاف نظر آتا ہے۔

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 190

پٹری کی خوبصورتی

آب گم کے اسٹیشن سے نکلتے ہی پٹری میں ایک خوبصورت مگر طویل ترین لوپ آتا ہے۔ یہاں کا نظارہ اتنا دلکش ہوتا ہے کہ گاڑی کے مسافروں کو انجن سے لے کر گاڑی کا آخری ڈبہ اور پیچھے لگا ہوا بینکر انجن بھی صاف نظر آتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مسحور کن صورت حال ہوتی ہے جس سے لطف اٹھانے کی خاطر لوگ کھڑکیوں اور دروازوں کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں اور جی بھر کے تصویریں بناتے ہیں۔ تقریباً سارا راستہ گاڑی کے ایسے شاندار موڑ آتے رہتے ہیں۔

کیچ سائیڈنگ لائن اور جہنمی لائن

اس سارے پہاڑی سلسلوں میں ایک اور بڑا خطرہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر بلندی پر چڑھتی ہوئی گاڑی کے بریک فیل ہو جائیں اور وہ تیزی سے پیچھے کی طرف لڑھکنا شروع ہو جائے یا مخالف سمت سے بلندی پر سے آتی ہوئی گاڑیاں جب نشیب میں بچھائی گئی پٹری پر اترتی ہیں، تو اس وقت بھی ان کے بے قابو ہو کر پٹری سے اتر کر الٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔

حفاظتی تدابیر

اس کا حل یہ نکالا گیا کہ آب گم سے کوئٹہ کی طرف آنے جانے والی گاڑیوں کی حد رفتار صرف 30 کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر کرد ی گئی تھی، جو آج بھی قائم ہے۔ اس کے علاوہ حفاظتی طور پر اس سارے راستے میں کچھ ایسے مقامات کو تلاش کیا گیا جہاں ریل گاڑی کے بے قابو ہونے کی صورت میں اسے اوپر پہاڑی پر بچھائی گئی ایک مخصوص لائن پر چڑھا دیا جائے، اس طرح اس کے نیچے لڑھکنے کی رفتار کا زور توڑ کر اسے قابو میں لایا جاسکے۔ ایسے مقامات کو کیچ سائیڈنگ لائن کہتے ہیں، بعض دل جلوں نے تو اس کا نام جہنمی لائن بھی رکھا ہوا ہے۔

عملی سہولتیں

کوئٹہ سے سبی تک اس ریلوے لائن پر چار ایسے ہی خطرناک مقامات کی نشاندہی کرکے وہاں اسٹیشن کے قریب سے اوپر پہاڑی تک جاتی ہوئی یہ پٹری بچھائی گئی ہے۔ ویسے تو وادی بولان کی اس ریلوے لائن پر چلنے کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ نشیب کی طرف جاتے ہوئے ایسے مقام پر پہنچنے سے پہلے گاڑی کو مکمل طور پر روک کر اس کے بریک چیک کی جاتی ہیں۔

بے قابو ہونے کی صورت میں اقدامات

اگر خدانخواستہ کوئی گاڑی بے قابو ہو گئی ہو تو اس کو کیچ سائیڈنگ لائن پر چڑھانے کا فیصلہ اس علاقے کے اسٹیشن ماسٹر کرتے ہیں۔ جیسے ہی اسٹیشن ماسٹر کو پچھلے اسٹیشن سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ گاڑی وہاں سے رکے بغیر ہی گزر گئی ہے، تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ گاڑی بے قابو ہو چکی ہے۔

خطرے کے اسباب

یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ریل گاڑی کیچ سائیڈنگ لائن پر چڑھتے ہی اپنی رفتار کھو بیٹھے گی اور رک جائے گی۔ لیکن یہ ایک خطرناک مفروضہ ہوتا ہے، جس میں ٹرین کے الٹنے کے علاوہ اس کا پہاڑی سے ٹکرا جانے یا نیچے لڑھک جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے، جس سے جانی نقصان کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

تجربات اور مشاہدات

جب سے یہ ریلوے لائن بنی ہے، صرف ایک دو مرتبہ ہی ایسا ہوا ہے کہ اس کیچ سائیڈنگ لائن کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کی نوبت آئی ہے۔ بے قابو مال گاڑیوں کا رخ ایسی ہی پٹری کی طرف موڑا گیا تھا، لیکن پھر بھی وہ کچھ دور جا کر الٹ گئی تھیں، جس کے نتیجے میں کچھ جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...