ننھا پھنا 2بھائی بھی دشمنی اور بدمعاشی میں نام رکھتے تھے، باوا حنیف شاہ بھی ایسا ہی کردارتھا، چھوٹے قد کا یہ آ دمی عرصہ تک خوف کی علامت بنا رہا۔

مصنف کی شناخت
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 232
یہ بھی پڑھیں: پارٹی بڑی تحریک کی تیاری کرے، ساری زندگی جیل میں رکھ لیں نہیں جھکوں گا، عمران خان
ننھا پھنا اور حنیف شاہ
ننھا پھنا 2 بھائی بھی دشمنی اور بدمعاشی میں نام رکھتے تھے۔ یہ بھی قتل ہو کر ہی انجام کو پہنچے۔ باوا حنیف شاہ بھی ایسا ہی کردار تھا۔ چھوٹے قد کا یہ آدمی عرصہ تک پولیس اور لوگوں کے لئے خوف کی علامت بنا رہا۔ میری اس سے ایک بار ملاقات لالہ اعجاز نے کرائی تھی جب وہ کسی فنکشن میں شامل تھا جہاں میں بھی مدعو تھا۔ چک معموری کا رہنے والا یہ شخص دھیمی گفتگو کرتا، اخلاق، رواداری سے پیش آتا مگر اپنے مخالفوں کے لئے بے رحم تھا۔ یہ شخص اپنی طبعی موت مرا۔
یہ بھی پڑھیں: پرائمری سکولوں کی بندش کے بعد سموگ کے تدارک کیلئے ایک اور بڑا اقدام
سید ریاض حسین شاہ
ایسا ہی ایک کردار سید ریاض حسین شاہ آف کوٹلی شاہ جہانیاں بھی تھے۔ یہ بزرگ مجھ سے بہت محبت کرتے لیکن اپنی دنیا کے بادشاہ تھے۔ ان کا ڈیرہ میرے دفتر کے نزدیک ہی تھا۔ کبھی ان سے ملاقات کے لئے جاتا تو لگتا جیسے کسی قلعہ میں چلے آئے ہیں۔ 20 فٹ اونچی دیواریں اور دیواروں کے کونوں پر بیٹھے ان کے گارڈ۔ وسیع دستر خوان اور دشمنیوں میں نام پیدا کرنے والے ریاض شاہ بھی دنیا سے خالی ہاتھ ہی گئے تھے جبکہ اپنے وارثوں کو یہ سبھی لوگ وراثت میں پرانی دشمنی اور نئی کلاشنکوف دے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ان جمگھٹوں سے آزاد اپنی مرضی کی زندگی گزارتے ہیں۔ نہ کہیں آنے کا خوف اور نہ کہیں جانے کا ڈر۔
یہ بھی پڑھیں: خام تیل کی قیمتوں میں عالمی منڈی میں 5 فیصد کی بڑی چھلانگ
سپائیسی چکن کا ذکر
کھاریاں کے لوگ بیرون ملک خاص طور پر یورپ میں آباد تھے۔ ساٹھ ستر کی دہائی کا ایک عام سا غریب قصبہ اب پاکستان کی امیر ترین تحصیل بن چکی ہے۔ پیسے کی فراوانی، تعلیم کی کمی، لوگ شو بازی کے عادی ہو گئے تھے۔ باہر کے پیسے نے ان میں ایک دوسرے سے مقابلے کے ٹرنڈ کو جنم دیا۔ مایا لگی شلوار قمیض یہاں کے نودولتیوں کی پہچان تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سموگ اور ہمارے جینے کے انداز
ناروے کا دورہ
مجھے ایک بار "نارویجیں ایمبیسی" کی فرسٹ سیکرٹری نے بتایا کہ وہ کھاریاں پاکستانیوں کے امیگریشن کیسز کی پڑتال کے لئے آتی تھیں۔ ایک لمبی اونچی قد کی شاندار خاتون تھی۔ انہوں نے میری دعوت پر ایک بار میرے گھر "سپائیسی چکن" کھایا۔ اس وقت جب پتہ چلا کہ مجھے سیاحت کا شوق ہے تو اس نے اپنے اصرار پر میری فیملی کو ناروے کا ویزا بھی دیا تھا کہ "جاؤ اور ناروے دیکھو، تم اس کی خوبصورتی میں کھو جاؤ گے۔" مگر میں جا نہ سکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی، ایشیاکپ 2025 کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگیا
کھاریاں کا حال
کلف لگے کپڑے پہنے جن لوگوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے کہ تعلق کھاریاں سے ہی ہو گا۔ ان لوگوں کے پاس پیسہ خوب تھا اور وہ بڑی گاڑیوں جیسے پیجیرو، لینڈ کروزر کے شوقین تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ جون جولائی کی سخت گرمی میں بھی وہ گاڑی کا اے سی کم ہی چلاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے اپنے جاننے والے سے پوچھا؛ "چوہدری صاحب! گاڑی کا اے سی کیوں نہیں چلاتے آپ؟" جواب میں انہوں نے 2 وجوہات بتائی تھیں۔ پہلی انجن پر زور پڑتا ہے، دوسری تازہ ہوا کا اپنا مزا ہے۔ شعور اور تعلیم کی کمی انسان پیسے سے پوری نہیں کر سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کی غزہ کے پناہ گزین سکول پر وحشیانہ بمباری، 52 فلسطینی شہید
نئی زندگی
آج کھاریاں بدل گیا ہے۔ بڑے بڑے پلازے، برانڈڈ شاپس یہاں پہنچ گئی ہیں۔ غیرملکی پیسے نے ملکی مہنگائی کو مات دے دی ہے۔ مرد گھروں سے دور دیار غیر میں مقیم تھے جبکہ اُن کے بیوی بچے پاکستان میں۔ سال بھر میں ایک بار ہی پاکستان آتے اور گھر والوں کو پیسوں سے لاد جاتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں خواتین کی حیثیت "سنگل مدر والی" اور بے راہ روی عام تھی۔
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔