1977ء میں جنرل محمد ضیاء الحق بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن گئے، عطیہ عنایت اللہ کو مرکزی کیبنٹ میں شامل کر لیا

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
یہ بھی پڑھیں: امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پاگیا، ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان
اہم واقعات
قسط: 100
راولپنڈی میں قیام کے دوران کرایہ پر یکے بعد دیگرے حاصل کردہ 3 گھروں میں بچوں کے ساتھ میرا قیام رہا۔ میری شادی 1970ء میں ہوئی تھی، جس کے 6 سال بعد 1976ء میں اللہ نے ہمیں ایک بیٹی جیسی رحمت و نعمت سے نوازا تھا۔ جس کا نام ہم نے صائمہ امیر رکھا۔ اسی طرح جون 1980ء میں ہمارے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی، جس کا نام عثمان امیر خاں رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی بچت اسکیموں پر منافع کی شرح میں کمی کردی گئی، اطلاق کب سے ہوگا؟ جانیے
جنرل ضیاء الحق کا دور
راولپنڈی میں طویل قیام کے دوران 1977ء میں جنرل محمد ضیاء الحق ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد جنرل صاحب خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان بن گئے۔ انہوں نے ہمارے ادارے فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی چیئرپرسن ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ کو مرکزی کیبنٹ میں بطور سٹیٹ منسٹر برائے بہبود آبادی شامل کر لیا، اس طرح وہ گورنمنٹ پاپولیشن ویلفیئر پروگرام اور فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے بہبود آبادی کے پروگرام دونوں کی سربراہ بن گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ کا سیکیورٹی آڈٹ کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ کا اہم دورہ
فیملی پلاننگ پروگرام کی صورتحال
گورنمنٹ فیملی پلاننگ پروگرام کو شروع ہوئے 15سال سے زائد ہو چکے تھے۔ 1960ء کے اوائل میں جب گورنمنٹ پروگرام شروع ہوا تو فیملی پلاننگ کی ہماری قومی زندگی میں اہمیت و افادیت کو اخبارات، ٹیلی ویڑن، ریڈیو اشتہارات "بچے دو ہی اچھے"، "بچوں میں وقفہ ماں کی صحت کا ضامن"، جیسے خوشنما سلوگنز کے ذریعے اُجاگر کیا گیا اور کافی حد تک عوام کو اس محکمہ کے مقاصد کے بارے میں آگاہی ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں: تم اور کتنی گہرائی میں جاؤ گے: سارہ شریف قتل کیس کا وہ ڈرامائی لمحہ جو مقدمے کی سمت بدل گیا۔
مسائل اور چیلنجز
لیکن جس طرح دیگر سرکاری محکموں میں کچھ سرکاری ملازمین وقت پر اپنے مراکز میں نہیں پہنچتے، غیر حاضر رہتے ہیں۔ حاضری لگا کر غائب ہو جانا معمول ہے اور مشنری انداز میں کام کرنے کی سپرٹ نہیں رکھتے، اسی طرح اس محکمے کے ملازمین کے بارے میں یہ شکایت سننے کو عام ملتی تھی کہ گورنمنٹ فیملی پلاننگ کے اکثر دور دراز دیہات میں مراکز بند ملتے ہیں اور سٹاف کے لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑی خریدنے کے خواہشمندوں کے لیے بڑی خوشخبری آنے کا امکان
مقامی مانیٹرنگ
غالباً ایسے ہی خدشات کے پیش نظر مرکزی وزیر بہبود آبادی ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے ڈسٹرکٹ لیول پر فیملی پلاننگ پروگرام کی مانیٹرنگ کا ارادہ کیا اور مجھے حکم دیا گیا کہ میں ڈسٹرکٹ راولپنڈی اور اس کی تحصیلوں کے تمام فیملی ویلفیئر سنٹر/ مراکز کی انسپکشن ڈسٹرکٹ پاپولیشن ویلفیئر آفیسر راولپنڈی کی ہمراہی میں کروں اور اس ضمن میں پراگرس رپورٹ مرتب کرکے ارسال کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی منڈی میں اضافے کے بعد پاکستان میں پیٹرول کتنا مہنگا ہونے کا امکان ہے؟ پریشان کن خبر
انسپکشن کا عمل
چنانچہ گورنمنٹ پروگرام کے ضلعی آفیسر چودھری نصیر اللہ خاں کے ساتھ مل کر انسپکشن شیڈول تیار کیا گیا اور ہم دونوں نے ضلع بھر کے تقریباً 40 مراکز کا معائنہ کیا۔ تحصیل مری اور تحصیل کہوٹہ کے 30 فیصد مراکز کی وزٹ کے دوران ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ بھی ہمارے ساتھ تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف کا سی ایم ایچ راولپنڈی کا دورہ
نقصانات اور فوائد
سروے/ انسٹیپکشن رپورٹ میں 20 فیصد مراکز کے بارے میں مذکورہ بالا خدشات کی تصدیق ہوئی، جبکہ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے رضا کارانہ پروگرام کی خوبی یہ تھی کہ ہمارے مراکز، دفاتر اور ہمارا سٹاف ان تمام خامیوں سے پاک تھے۔
نتیجہ
انسپکشن سروے کا مقصد، وزیر بہبود آبادی کے پیش نظر، یہی تھا کہ زمینی حقائق معلوم ہونے پر گورنمنٹ پاپولیشن ویلفئیر پروگرام کو موثر اور فعال بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔