مچھ اسٹیشن پاکستان کے سب سے خوبصورت اسٹیشنوں میں شمار ہوتا ہے، وکٹورین طرز کی عمارت دیدنی اور شاندار ہے

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 191
حالیہ برسوں میں ایک مسافر گاڑی جعفر ایکسپریس بھی 2015ء میں ایسے ہی حالات میں آبِ گم اسٹیشن پر تباہ ہوئی تھی جس میں کافی جانی نقصان ہوا تھا۔ ریلوے کے اعلیٰ افسران تو اب تک اس بات پر مصر ہیں کہ یہ محض گاڑی کے پٹری سے اترنے کا ایک عام سا واقعہ تھا، تاہم کچھ چشم دید گواہ بتاتے ہیں کہ اس بے قابو جعفر ایکسپریس کو کیچ سائیڈنگ لائن پر چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی، جو کامیاب نہ ہوئی اور اس دوران یہ گاڑی اْلٹ گئی تھی۔
کیچ سائیڈنگ لائن کا تصور
کیچ سائیڈنگ لائن کو بناتے وقت اس بات کا خیال بھی رکھا جاتا ہے کہ اس لائن کی طوالت گاڑی کی مجموعی لمبائی سے زیادہ ہو تاکہ جب یہ پوری طرح اْوپر چڑھ جائے تو کسی بھی حالت میں اس کا کوئی بھی حصہ یا بوگیاں مرکزی پٹری پر موجود نہ رہے، ورنہ لائن بند ہو جائے گی یا مرکزی لائن پر آتی ہوئی کوئی دوسری گاڑی اس سے ٹکرا جائے گی۔ اگر بوجوہ کسی اسٹیشن کے ساتھ کیچ سائیڈنگ لائن نہ ہو یعنی سطح ہموار ہو اور یہ گاڑی کیچ سائیڈنگ لائن نہ استعمال کر سکے تو وہاں ایک ریت کی مصنوعی پہاڑی بنا کر ایک لائن بچھا دی جاتی ہے جو آگے جا کر ریت یا مٹی میں دبا دی جاتی ہے۔ اس کو عام زبان میں سلپ سائیڈنگ لائن بھی کہتے ہیں۔ اگر کوئی گاڑی کیچ سائیڈنگ لائن میں داخلے کی جگہ سے آگے نکل آئے تو پھراس کو روکنے کیلئے یہ آخری طریقہ آزمایا جاتا ہے۔
مچھ، کوئلہ اور جیل
آب گم سے کچھ دور ہی وادیِ بولان کا علاقہ پوری شان و شوکت سے شروع ہو جاتا ہے۔ جس میں پہلے مچھ کا مشہور قصبہ آتا ہے۔ جہاں کھجوروں اور پھلوں کے بے شمار باغات اور سبزیاں وغیرہ اگائی جاتی ہیں۔ مچھ تحصیل کی سطح کا ایک قصبہ ہے اس لیے وہاں اسی نوعیت کے سرکاری ادارے اور دفاتروغیرہ ہیں مجموعی طور پر مچھ کو 3حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے یعنی ریلوے کا علاقہ، مچھ جیل کا احاطہ اور مچھ کا قصبہ۔
مچھ اسٹیشن کی خوبصورتی
واقعہ یوں ہے کہ یہاں لائن میں کچھ ڈھلوان ہے اس لیے دونوں انجن گاڑی کو لے کر ایک بار تو تیزی سے اسٹیشن کے سامنے سے آگے نکل جاتے ہیں، پھر وہاں ڈھلوان کے ختم ہوتے ہی بریک لگا کر گاڑی کو روکا جاتا ہے اور اسے ایک بار پھر پیچھے لے کر آتے ہیں اور پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیتے ہیں۔ انگریزوں کی ذہانت دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ مچھ اسٹیشن کا پاکستان کے خوبصورت اسٹیشنوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی وکٹورین طرز کی عمارت اسے بہت بارعب اور شاندار بنا دیتی ہے اور مسافر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ریلوے کا ایک بڑا سٹیشن ہے، جہاں تمام بنیادی سہولتیں دستیاب ہیں۔
کوئلے کے وسیع ذخائر
کوئلے کے یہاں اتنے وسیع ذخائر ہیں کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ارد گرد کے سارے پہاڑ کوئلے سے بھرے پڑے ہیں، جہاں سے دن رات کوئلہ نکال کر پورے پاکستان میں منتقل کیا جاتا ہے، جہاں یہ بھٹیوں اور بجلی گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کوئلے کے انبار لگے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں سے برادہ اڑ اڑ کر سارے ماحول کو بھی سیاہ کر دیتا ہے۔ چلتی ریل گاڑی سے یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ کوئلے کے ان ڈھیروں میں سے اکثر دھواں نکلتا بھی نظر آجاتا ہے۔یہاں کوئلے کی کانوں میں کانکنی کے لیے زیادہ تر مزدور خیبر پختون خواہ کے علاقوں دیر، سوات اور بلوچستان کے ہزارہ قبائل سے آتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے زیادہ خوفناک اور مشہور مچھ جیل بھی یہیں موجود ہے، جس کی چار دیواری دور ہی سے نظر آجاتی ہے۔ اس جیل کے بارے میں بڑی دہشتناک کہانیاں بنی ہوئی ہیں۔ اس میں اپنے زمانے کے بڑے بڑے سیاسی لوگ اور خطرناک مجرم قید رہے ہیں.
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔