پولیس کے زیر حراست ملزمان پر تشدد اور قتل کے مقدمے کی تفتیش کون کرے گا؟ لاہور ہائیکورٹ نے قانونی نکتہ طے کردیا
لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ
لاہور (کورٹ رپورٹر سے) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے پولیس کی زیر حراست ملزم پر تشدد یا جاں بحق ہونے کا مقدمہ ٹرائل شروع ہونے سے قبل ایف آئی اے کو ٹرانسفر کرنے پر پولیس کی درج کی گئی ایف آئی آر کینسل کرنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: کرتار پورگوردوارہ میں نکاسیٔ آب چند گھنٹوں میں مکمل، جنم استھان کے تمام حصے مکمل طورپر صاف، وسیع صحن سے پانی نکال دیاگیا
قانونی نکتہ
جسٹس طارق سلیم شیخ نے نیا قانونی نکتہ طے کرتے ہوئے قرار دیا کہ حکومت نے کسٹوڈیل اینڈ ڈیتھ ٹارچر ایکٹ کے حوالے سے آگاہی اور سرکاری اہلکاروں کی ٹریننگ کے اقدامات نہیں کیے۔
یہ بھی پڑھیں: یہ کیسا پاکستان ہے جہاں چینی باہر بھیجی جاتی ہے، پھر وہی چینی باہر سے منگوائی جاتی ہے ” شہباز شریف کی پرانی ویڈیو انٹرنیٹ پر پھر وائرل
تشدد کا مقدمہ
پولیس کے زیر حراست ملزمان پر تشدد اور قتل کے مقدمے کی تفتیش کون کرے گا؟ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے قانونی نکتہ طے کر لیا۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے کانسٹیبل محمد آفتاب کی درخواست ضمانت پر 29 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: چائے کے ہوٹل پر دوستوں کے درمیان تلخ کلامی نوجوان کے جان لے گئی
تفتیشی سوالات
جسٹس طارق سلیم شیخ نے زیر حراست ملزم پر تشدد کے مقدمے میں گرفتار پولیس اہلکار کی ضمانت منظور کر لی۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ عدالت کے سامنے اس کیس میں 3 بنیادی سوالات تھے:
- ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ایکٹ 2022 کے کون سے جرائم کی تفتیش ہوسکتی ہے؟
- ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ کی موجودگی میں زیر حراست ڈیتھ کا مقدمہ اگر پی پی سی کے قوانین کے تحت پولیس درج کرے تو ایف آئی اے کو ٹرانسفر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟
- اگر تفتیش ایف آئی اے کو منتقل ہو جاتی ہے تو پھر پولیس نے جو تفتیش کی تھی اس کا کیا ہوگا؟
عدالت کی کارروائی
انتہائی اہم سوالات کے باعث عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو طلب کیا جبکہ بیرسٹر حیدر رسول مرزا اور قرۃ العین افضل ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کیا۔








