وقت نے معاشرے میں برداشت اور رواداری بھی کم کر دی۔ دوسرے کے نقطہ نظر کی اہمیت تب تک ہے جب تک وہ ہمارے نقطہ نظر کو سوٹ کرتی ہے۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 233

راجہ جاوید کی کہانی

راجہ جاوید کے خلاف انکوائری میں ریاض صاحب (باس) انکوائری افسر تھے۔ باس قائدے قانون کے آدمی، مزاج کے نرم مگر لکھنے کے سخت تھے۔ اگر کسی کے خلاف لکھ دیتے تو بچنا مشکل ہوتا، گو وہ اپنے قلم کی مار کو کم ہی استعمال کرتے اور ان سے رعایت کی توقع بھی کم ہی ہوتی تھی۔

جاوید کی انکوائری میں پہلی پیشی ہوئی تو وہ بہت ڈر گیا۔ مجھے بولا؛ “سر! چوہدری ریاض صاحب سے کم ہی معافی ملتی تھی۔” اسی روز وہ مجھے ملنے چلے آئے۔ گپ شپ کے بعد میں نے ان سے جاوید کی سفارش اس کی موجودگی میں ہی کی۔ سن کے ہنسے اور جاوید سے مخاطب ہوتے بولے؛ “راجہ! رپورٹ شہزاد صاحب توں لکھوا لے، میں دستخط کر دیواں گا۔ ہن خوش ایں۔” رپورٹ باس نے ہی لکھی اور جاوید کی جان بخشی کر دی تھی۔ باس کی مہربانی۔ دوستوں کے دستوں پر احسان نہیں بس مہربانیاں اور یاریاں ہی ہوتی ہیں۔

پراجیکٹ منیجر کی ذمہ داریاں

اس دور میں پراجیکٹ منیجر کی اہم ذمہ داریوں میں سے چند محرم الحرام کے جلوسوں اور مجالس کی نگرانی، جنرل اور لوکل گورنمنٹ الیکشن اور بطور چیئر مین ثالثی کونسل شامل تھیں۔ تینوں ہی اپنے تعین اہم تھیں اور یہ ایک طرح سے پراجیکٹ منیجر کے عہدے پر سرکار کا اعتماد بھی تھا۔

محرم کے جلوسوں کی نگرانی کے لئے حکومتی نوٹیفیکیشن سے مجسٹریٹ درجہ اؤل کے اختیارات حاصل ہوجاتے، پولیس کے چند سپاہی بھی ڈیوٹی مجسٹریٹ کے ہمراہ اور وقتی طور پر ماتحت ہوتے اور نقص امن کرنے والوں کے خلاف کاروائی کے لئے موجود ہوتے تھے۔ عموماً اس دور میں یہ جلوس پر امن ہی ہوتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تنگ نظری نے اس امن و امان میں خلل ڈالنا شروع کر دیا تھا۔

اللہ کا کرم رہا کہ تیرہ چودہ سال محرم ڈیوٹی کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی ان اختیارات کو کبھی استعمال کرنا پڑا تھا حالانکہ ڈیوٹی کے دو تین پوائنٹس sensitive تھے۔ جیسے کھاریاں میں موضع دھنی جبکہ لالہ موسیٰ میں موضع "دلانوالہ اور چھوکر"۔ کئی برس ڈیوٹی دی اور اک دھڑکا ضرور رہا کہ کہیں کوئی ناخوشگوار بات نہ ہو جائے کہ ساری ذمہ داری ڈیوٹی افسر کی ہی ہوتی تھی۔

صبح سے شام گئے تک یہ ڈیوٹی اور جلوس کے ساتھ ساتھ پیدل چلنا ایک تھکا دینے والا چیلنج ہوتا تھا۔ وقت نے معاشرے میں جہاں اور خرابیاں پیدا کیں وہاں برداشت اور رواداری بھی کم کر دی۔ دوسرے کے نقطہ نظر کی اہمیت تب تک ہے جب تک وہ ہمارے نقطہ نظر کو سوٹ کرتی ہے۔ جہاں یہ بات دوسری سمت جاتی محسوس ہوئی، وہاں ہم برداشت نام کے لفظ سے بھی ناواقف ہونے لگتے ہیں۔

نہ تو ہم سیاسی، نہ مذہبی اور نہ ہی سائنسی اختلافات برداشت کرنے کو آمادہ نظر آتے ہیں۔ مذہب کسی بھی شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کی واضح ہدایات ہیں کہ “کون سا راستہ درست ہے اور کون سا غلط، اور ہم روز قیامت اللہ کو ہی جواب دہ ہیں۔” (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...