طاقت کا نیا چہرہ۔۔۔شعور کے سانچے بدل رہے ہیں، سوچیے! ہماری رائے کون بناتا ہے؟

ڈیٹا کی طاقت
تحریر: رانا بلال یوسف
کبھی سوچا تھا کہ ایک دن دنیا کی سب سے بڑی طاقت زمین یا تیل نہیں، بلکہ ہماری توجہ ہوگی؟ ہم ایک ایسی صدی میں سانس لے رہے ہیں جہاں دولت کا پیمانہ وسائل نہیں، بلکہ ڈیٹا ہے۔ یہ وہی ڈیٹا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے سکرینوں پر بہتا ہے، جو ہماری ترجیحات کو رنگ دیتا ہے، ہماری پسند اور نفرت کو تشکیل دیتا ہے، اور ہمارے خوابوں کے خدوخال طے کرتا ہے۔ ایک صدی پہلے اسٹینڈرڈ آئل نے امریکی معیشت پر اجارہ داری قائم کی تھی اور دنیا نے دیکھا کہ طاقت کا ارتکاز کس طرح پورے نظام کو مفلوج کر دیتا ہے۔ آج تاریخ ایک نئے روپ میں دہرائی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم اس حقیقت سے نظریں کب ملائیں گے؟
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا مختلف شعبوں میں اصلاحات اور کارکردگی میں بہتری لانے کا فیصلہ
سماجی و سیاسی بحران
یہ حقیقت اب صرف کاروبار تک محدود نہیں رہی، بلکہ ایک گہرا سماجی، سیاسی اور اخلاقی بحران بن چکی ہے۔ آج چند ٹیکنالوجی کے دیو ایسے دروازے بن چکے ہیں جن سے گزرے بغیر کوئی آواز عوام تک نہیں پہنچتی۔ یہ ادارے محض ہمارے مکالمے کو کنٹرول نہیں کر رہے، بلکہ ہمارے شعور کے سانچے تراش رہے ہیں، ہماری سوچ کے زاویئے بدل رہے ہیں اور ہمارے یقین کے پیمانے طے کر رہے ہیں۔ جیسا کہ یووال نوح ہراری نے خبردار کیا تھا:
’’جو قوم ڈیٹا کی مالک ہوگی، وہ مستقبل کی مالک ہوگی۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: گاڑی کی ٹکر لگنے پر مشتعل افراد کا سینئر اداکار راشد محمود پر تشدد
معلومات کی کنٹرولنگ
یہ جملہ محض فلسفیانہ تجزیہ نہیں، بلکہ اس عہد کا وہ اعلان ہے جو آنے والے وقت کی بنیادیں ہلا دینے والا ہے۔ اگر آج ڈیٹا چند ہاتھوں میں مرتکز ہے، تو سمجھ لیں کہ مستقبل بھی انہی ہاتھوں میں قید ہے۔
سوچیے! آج ہماری رائے کون بناتا ہے؟ وہ اخبار نہیں جو کبھی معاشرے کی زبان ہوا کرتے تھے، بلکہ وہ الگورتھمز جو یہ طے کرتے ہیں کہ آپ کی اسکرین پر کون سا مواد آئے گا اور کون سا دفن ہو جائے گا۔ یہ الگورتھمز محض معلومات چھانٹتے نہیں، یہ جذبات کو بھی انجینئر کرتے ہیں۔ ہماری دلچسپیاں، ہمارا غصہ، ہماری کمزوریاں سب ان کے لیے منافع کا خام مال ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہر قسم کی دہشتگردی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے پرعزم ہیں، وزیراعظم
مالی اور فکری بحران
یہ اجارہ داری صرف سوچ پر نہیں، معیشت پر بھی بھاری ہے۔ عالمی سطح پر آن لائن اشتہارات کے کھربوں روپے کے بازار پر 2 کمپنیاں چھائی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں ان کا حصہ 85 فیصد سے زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ روایتی میڈیا کے بزنس ماڈل زمین بوس ہو گئے ہیں۔
سوال یہ ہے: اگر خبریں بنانے والے دیوالیہ ہو جائیں اور خبریں دکھانے والے اربوں کما لیں، تو یہ کیسا انصاف ہے؟
یہ بھی پڑھیں: تجمل کلیم کی وفات سے پنجابی ادب ایک عظیم تخلیق کار سے محروم ہو گیا: نور اللہ صدیقی
انسانی شعور کا کنٹرول
یہ بحران صرف مالی نہیں، فکری اور اخلاقی بھی ہے۔ جب ریونیو ختم ہوتا ہے تو نیوز رومز سکڑتے ہیں، رپورٹرز بے روزگار ہوتے ہیں اور تحقیقاتی صحافت مر جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ طاقت کا احتساب کمزور ہوتا ہے۔ یہ سب خطرناک پہلو ہیں، جہاں یہی کمپنیاں جمہوریت، آزادی اور پرائیویسی کی بنیادوں کو ہلا دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا عیدالاضحی پر فول پروف سیکیورٹی انتطامات کا حکم
حل کی تلاش
کیا صرف قوانین کافی ہوں گے؟ شاید نہیں۔ اصل حل ایک نئے ڈھانچے میں ہے — ایسا ماڈل جو طاقت کو چند ہاتھوں سے نکال کر عوام میں تقسیم کرے۔ دنیا آج Web3 اور فیڈریٹڈ نیٹ ورکس کی بات کر رہی ہے، اور یہ محض فیشن نہیں، بلکہ ناگزیر ضرورت ہے۔
آنے والی نسلیں
ہمیں اپنی سیاست، اپنی رائے اور اپنی حقیقت کا تعین خود کرنا ہوگا۔ یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ اگر بیسویں صدی نے تیل کے اجارہ داروں کو توڑا تھا، تو اکیسویں صدی کو ڈیجیٹل سامراج کی زنجیریں توڑنی ہوں گی۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔