ترکی کا شام کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف براہ راست مداخلت کا اعلان

ترکی کی شام میں مداخلت کی وارننگ
انقرہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) ترکی نے خبردار کیا ہے کہ وہ شام کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف براہ راست مداخلت کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو 30 رنز سے شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی
جنوبی شام میں جھڑپوں کا پس منظر
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق ترک وزیر خارجہ حقان فدان نے منگل کے روز انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی شام میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد اگر کوئی گروہ خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو ترکی اسے روکے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اساتذہ بھرتی کا مرحلہ مکمل
اسرائیل پر تنقید
ان کا کہنا تھا کہ شام کی تقسیم کی کسی بھی کوشش کو ترکی روکنے کے لیے مداخلت کرے گا، اور اس تناظر میں اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ترکی کے مطابق اسرائیل شام میں عدم استحکام پیدا کر کے اسے تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی ٹیسٹ کے پہلے روز کا کھیل ختم ، انگلش ٹیم 267 رنز پر ڈھیر، 73 پر 3 شاہین بھی پویلین لوٹ گئے
اسرائیلی فضائی حملوں کی مذمت
ترکی نے گزشتہ ہفتے دمشق پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں کی مذمت کی ہے اور ان حملوں کو شام میں امن اور سلامتی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ترکی حکام کا ماننا ہے کہ جنوبی شام کے صوبہ سویدہ میں دروز جنگجوؤں اور بدو قبائل کے درمیان جھڑپیں بھی اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد پورے خطے کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سولر پر عائد ٹیکس فوری ختم کیا جائے، عبدالشکور کھتری کا وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ
نیٹو رکن کی حیثیت سے ترکی کی حمایت
ترکی نیٹو کا رکن ملک ہونے کے باوجود شام کی نئی حکومت کی حمایت کرتا ہے اور اس نے دروز اور بدو گروہوں کے درمیان فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے اپنے ہی 2 شہروں پر 6 بیلسٹک میزائل فائر کر دیئے: ڈی جی آئی ایس پی آر کا دعویٰ
آنے والے خطرات
ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل شام کو کمزور اور غیر مستحکم بنا کر خطے کے لیے بوجھ بنانا چاہتا ہے، جبکہ کرد ملیشیا YPG اس بدامنی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
استحکام کے خطرات
انہوں نے کہا کہ شام میں موجود گروہوں کو موجودہ بدامنی کو خودمختاری یا آزادی حاصل کرنے کے لیے موقع نہیں سمجھنا چاہیے، ورنہ انہیں بڑی اسٹریٹیجک تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے مطابق اس راستے کا کوئی اختتام نہیں۔